English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
20. باب بيع الخلط من التمر:
باب: مختلف قسم کی کھجور ملا کر بیچنا کیسا ہے؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2080
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ وَهُوَ الْخِلْطُ مِنَ التَّمْرِ، وَكُنَّا نَبِيعُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، وَلَا دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) مختلف قسم کی کھجوریں ایک ساتھ ملا کرتی تھیں اور ہم دو صاع کھجور ایک صاع کے بدلے میں بیچ دیا کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صاع ایک صاع کے بدلہ میں نہ بیچی جائے اور نہ دو درہم ایک درہم کے بدلے بیچے جائیں۔ [صحيح البخاري/كتاب البيوع/حدیث: 2080]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو سعيد الخدري، أبو سعيدصحابي
👤←👥أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري، أبو سلمة
Newأبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري ← أبو سعيد الخدري
ثقة إمام مكثر
👤←👥يحيى بن أبي كثير الطائي، أبو نصر
Newيحيى بن أبي كثير الطائي ← أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري
ثقة ثبت لكنه يدلس ويرسل
👤←👥شيبان بن عبد الرحمن التميمي، أبو معاوية
Newشيبان بن عبد الرحمن التميمي ← يحيى بن أبي كثير الطائي
ثقة
👤←👥الفضل بن دكين الملائي، أبو نعيم
Newالفضل بن دكين الملائي ← شيبان بن عبد الرحمن التميمي
ثقة ثبت
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
2303
بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
صحيح البخاري
2080
لا صاعين بصاع ولا درهمين بدرهم
صحيح مسلم
4087
أنى لك هذا قال انطلقت بصاعين فاشتريت به هذا الصاع فإن سعر هذا في السوق كذا وسعر هذا كذا فقال رسول الله ويلك أربيت إذا أردت ذلك فبع تمرك بسلعة ثم اشتر بسلعتك أي تمر شئت
صحيح مسلم
4082
أكل تمر خيبر هكذا فقال لا والله يا رسول الله إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين والصاعين بالثلاثة فقال رسول الله فلا تفعل بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
سنن النسائى الصغرى
4560
لا صاعي تمر بصاع لا صاعي حنطة بصاع لا درهمين بدرهم
سنن النسائى الصغرى
4558
بع تمرك واشتر من هذا حاجتك
سنن النسائى الصغرى
4559
لا صاعي تمر بصاع لا صاعي حنطة بصاع لا درهما بدرهمين
سنن ابن ماجه
2256
لا يصلح صاع تمر بصاعين لا درهم بدرهمين الدرهم بالدرهم الدينار بالدينار لا فضل بينهما إلا وزنا
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2080 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2080
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیوں کہ ان میں جو کچھ بھی عیب ہے وہ ظاہر ہے اور عمدگی ہے وہ بھی ظاہر ہے کوئی دھوکہ بازی نہیں ہے لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں بیچی جاسکتی ہیں۔
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت فرمائی وہ حدیث سے ظاہر ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2080]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2080
حدیث حاشیہ:
یہ حکم تمام اشیائے خوردنی کا ہے۔
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو کمی بیشی اور ادھار جائز نہیں، البتہ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیونکہ ان میں جو کچھ عیب ہے وہ ظاہر ہے اور جو عمدگی ہے وہ بھی واضح ہے۔
کوئی دھوکا بازی یا فریب کاری نہیں ہے،لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں فروخت کی جاسکتی ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہےکیونکہ کھجوریں روی ہوں یا اعلیٰ،یہ سب ایک ہی جنس ہیں،باہمی تبادلے کے وقت ایک ہی جنس میں نفع لینا جائز نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اس سے مراد مختلف قسم کی کھجوروں کا ملاجلا ڈھیر ہے لیکن اگر اس طرح کی کھجوریں پیک شدہ ہوں،عمدہ کھجوریں نظر آئیں اور روی کھجوریں نظر وں سے اوجھل رہیں تو اس صورت میں ان کی فرخت جائز نہیں ہوگی۔
(فتح الباری: 4/394)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2080]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4558
کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس «ریان» (نامی عمدہ) کھجوریں لائی گئیں اور آپ کی «بعل» نامی (گھٹیا قسم کی) سوکھی کھجور تھی تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے بدلے اسے ایک صاع خریدی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اس لیے کہ یہ چیز صحیح نہیں، البتہ تم اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر اس نقدی سے اپنی ضرورت ک [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4558]
اردو حاشہ:
موٹی تازی کھجوریں مراد ان درختوں کی کھجوریں ہیں جن کو پانی وافر ملتا تھا۔ ظاہر ہے وہ ایسی ہی ہوں گی اور جن درختوں کو پانی نہیں ملتا، وہ زمین کے پانی ہی سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی کھجوریں خشک ہی ہوں گی۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4558]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2256
بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2256]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھجور کا کھجور کےساتھ تبادلہ وزن کی کمی بیشی کےساتھ جائز نہیں۔
اسی طرح اشیاء اگر ایک جنس سے ہوں تو ان کا باہمی تبادلہ وزن کی کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں۔

(2)
دور نبوی میں مختلف قسم کے درہم و دینار رائج تھے لیکن ہر درہم دوسرے درہم کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اسی طرح ایک قسم کا دینار دوسری قسم کے دینار سے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان کے وزن کے معمولی فرق کو نظر انداز کر دیا گیا۔

(3)
روپے کے پرانے اور نئے نوٹوں کا تبادلہ یا بڑے نوٹ کا چھوٹے نوٹوں سے تبادلہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔
سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے میں پرانے نوٹوں کی صورت میں ایک سو دس روپے دینا‘ یا ایک سوروپے کے نوٹ کے بدلے میں روپے روپے والے نوٹ یا سکے کم وصول کرنا جائز نہیں کیونکہ بازار میں خرید وفروخت کے لیے نئے اور پرانے نوٹ یا سکے کی قدر میں کوئی فرق نہیں۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2256]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4087
ابو نضرہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقدی کے باہمی تبادلہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا، میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے ان سے بھی صرف (نقدی کا باہمی تبادلہ) کے بارے میں پوچھ لیا، تو انہوں نے کہا، ایک جنس کی صورت میں جو اضافہ ہے، وہ سود ہے، تو میں نے ان دونوں (ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4087]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابو صبہاء جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں،
ان کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرح اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4087]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2303
2303. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا تو وہ وہاں سے عمدہ کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے کہا (نہیں بلکہ)ہم ان کھجوروں کا صاع، دوصاع کے عوض اوردو صاع تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو، بلکہ اچھی اور ردی کھجوریں دراہم کے عوض فروخت کرو، پھر دراہم کے عوض عمدہ کھجوریں خریدو۔ نیز آپ نےوزن (سے فروخت ہونے والی اشیاء)کے متعلق بھی اسی طرح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2303]
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ نے کہا کہ خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا گیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔
معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا۔
ورنہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2303]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2303
2303. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا تو وہ وہاں سے عمدہ کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے کہا (نہیں بلکہ)ہم ان کھجوروں کا صاع، دوصاع کے عوض اوردو صاع تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو، بلکہ اچھی اور ردی کھجوریں دراہم کے عوض فروخت کرو، پھر دراہم کے عوض عمدہ کھجوریں خریدو۔ نیز آپ نےوزن (سے فروخت ہونے والی اشیاء)کے متعلق بھی اسی طرح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2303]
حدیث حاشیہ:
(1)
سونے چاندی اور کرنسی کے تبادلے کو صَرف کہا جاتا ہے۔
اس بیع میں وہم ہوسکتا ہے کہ شاید اس میں وکالت جائز نہ ہو کیونکہ اس بیع میں عوضین (سونے یا چاندی)
کے قبض سے پہلے تفارق (ایک دوسرے سے الگ ہونا)
جائز نہیں، وکالت میں مؤکل اصل ہے جو عقد کے وقت موجود نہیں ہوتا تو قبض کے بغیر تفارق لازم آتا ہے، اس وہم کو امام بخاری ؒ نے دور کیا ہے کہ وکیل ہی براہِ راست عقد کرنے والا ہے، لہٰذا سب حقوق اسی کی طرف راجع ہوں گے، وکیل کا قبضہ اصیل کا قبضہ شمار ہوگا۔
بہر حال بیع صرف وکالتًا جائز ہے اور مؤکل کی جگہ وکیل کا قبضہ بھی معتبر ہے۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ ماپ سے خریدوفروخت والی اشیاء کو ایک صاع، دو صاع کے عوض مت لو بلکہ انھیں دراہم سے فروخت کرو، پھر دراہم سے دوسری عمدہ کھجور خرید لو،اسی طرح وزن سے خریدوفروخت والی اشیاء کا بھی یہی حکم ہے۔
(3)
اس حدیث سے عنوان کی مناسبت اس طرح ہے کہ جب وکیل کو دوصاع کے عوض ایک صاع لینے سے منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ درہم کی بیع درہم سے اور دینار کی بیع دینار سے بھی اسی طرح ہے۔
اس میں توکیل کے معنی بھی واضح ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے عامل کو اس طرح کرنے میں وکیل مقرر کیا تھا۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2303]