صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
23. باب: {وقال رجل مؤمن من آل فرعون} إلى قوله: {مسرف كذاب} :
باب: (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) ”اور فرعون کے خاندان کے ایک مومن مرد (شمعان نامی) نے کہا جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «مسرف كذاب» تک۔
حدیث نمبر: Q3392
وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا سورة مريم آية 53 يُقَالُ لِلْوَاحِدِ وَللْاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ نَجِيٌّ وَيُقَالُ خَلَصُوا نَجِيًّا اعْتَزَلُوا نَجِيًّا وَالْجَمِيعُ أَنْجِيَةٌ يَتَنَاجَوْنَ.
اور ان کے لیے اپنی مہربانی سے ہم نے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبی بنایا۔ واحد ‘ تثنیہ اور جمع سب کے لیے لفظ «نجي.» بولا جاتا ہے۔ سورۃ یوسف میں ہے۔ «خلصوا نجيا.» یعنی اکیلے میں جا کر مشورہ کرنے لگے (اگر «نجي.» کا لفظ مفرد کے لیے استعمال ہوا ہو تو) اس کی جمع «أنجية» ہو گی۔ سورۃ المجادلہ میں لفظ «يتناجون» بھی اسی سے نکلا ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب أحاديث الأنبياء/حدیث: Q3392]
حدیث نمبر: 3392
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:"فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ، فَقَالَ:" وَرَقَةُ مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى وَإِنْ أَدْرَكَنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا النَّامُوسُ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي يُطْلِعُهُ بِمَا يَسْتُرُهُ عَنْ غَيْرِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غار حراء سے) ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ «ناموس» جنہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ «ناموس» محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے۔ [صحيح البخاري/كتاب أحاديث الأنبياء/حدیث: 3392]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥عائشة بنت أبي بكر الصديق، أم عبد الله | صحابي | |
👤←👥عروة بن الزبير الأسدي، أبو عبد الله عروة بن الزبير الأسدي ← عائشة بنت أبي بكر الصديق | ثقة فقيه مشهور | |
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر محمد بن شهاب الزهري ← عروة بن الزبير الأسدي | الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه | |
👤←👥عقيل بن خالد الأيلي، أبو خالد عقيل بن خالد الأيلي ← محمد بن شهاب الزهري | ثقة ثبت | |
👤←👥الليث بن سعد الفهمي، أبو الحارث الليث بن سعد الفهمي ← عقيل بن خالد الأيلي | ثقة ثبت فقيه إمام مشهور | |
👤←👥عبد الله بن يوسف الكلاعي، أبو محمد عبد الله بن يوسف الكلاعي ← الليث بن سعد الفهمي | ثقة متقن من أثبت الناس في الموطأ |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
4957
| رجع النبي إلى خديجة فقال زملوني زملوني |
صحيح البخاري |
3392
| رجع النبي إلى خديجة يرجف فؤاده فانطلقت به إلى ورقة بن نوفل وكان رجلا تنصر يقرأ الإنجيل بالعربية فقال ورقة ماذا ترى فأخبره فقال ورقة هذا الناموس الذي أنزل الله على موسى وإن أدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا الناموس صاحب السر الذي يطلعه بما |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3392 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3392
حدیث حاشیہ:
1۔
انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ ؑ بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔
ان کاذکر خیر متعدد آیات میں آیا ہے۔
ان کی پیدائش اور بعد کی پوری زندگی قدرت الٰہی کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے تھی۔
انھوں نے وقت کے جابر حکمران سے ٹکر لی جو خود کو رب اعلیٰ (سب سے بڑا رب)
کہتا تھا۔
آسمانی کتاب کے بغیر صرف وحی خفی، یعنی احادیث مبارکہ سے اس کا مقابلہ کیا۔
آخر وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشان ِعبرت بنا۔
حضرت موسیٰ ؑ کا یہ وہ کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
2۔
اس حدیث میں ورقہ بن نوفل کا ایک مقولہ محل استشہاد ہے:
”یہ تو وہی رازدان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔
“ اس سے مراد فرشتہ وحی حضرت جبرئیل ؑ ہیں۔
3۔
فرعون کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں تورات جیسی مقدس کتاب عطا فرمائی جو سراپا ہدایت اور روشنی تھی۔
1۔
انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ ؑ بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔
ان کاذکر خیر متعدد آیات میں آیا ہے۔
ان کی پیدائش اور بعد کی پوری زندگی قدرت الٰہی کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے تھی۔
انھوں نے وقت کے جابر حکمران سے ٹکر لی جو خود کو رب اعلیٰ (سب سے بڑا رب)
کہتا تھا۔
آسمانی کتاب کے بغیر صرف وحی خفی، یعنی احادیث مبارکہ سے اس کا مقابلہ کیا۔
آخر وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشان ِعبرت بنا۔
حضرت موسیٰ ؑ کا یہ وہ کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
2۔
اس حدیث میں ورقہ بن نوفل کا ایک مقولہ محل استشہاد ہے:
”یہ تو وہی رازدان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔
“ اس سے مراد فرشتہ وحی حضرت جبرئیل ؑ ہیں۔
3۔
فرعون کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں تورات جیسی مقدس کتاب عطا فرمائی جو سراپا ہدایت اور روشنی تھی۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3392]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4957
4957. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔“ اس کے بعد پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4957]
حدیث حاشیہ:
اس پوری حدیث میں وحی اول کے نزول کا ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
اس نے انسان کو قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔
اگر اللہ تعالیٰ انسان کو قلم اور کتابت کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی صلاحتیں سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا عام دستور ہے لیکن حضرات انبیا علیہم السلام کا علم اس قلم کا محتاج نہیں۔
اسی طرح انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ لا علم ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قلم کے استعمال سے پہلے ہی اسے بہت سی باتیں سکھا دیتا ہے۔
اس پوری حدیث میں وحی اول کے نزول کا ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
اس نے انسان کو قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔
اگر اللہ تعالیٰ انسان کو قلم اور کتابت کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی صلاحتیں سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا عام دستور ہے لیکن حضرات انبیا علیہم السلام کا علم اس قلم کا محتاج نہیں۔
اسی طرح انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ لا علم ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قلم کے استعمال سے پہلے ہی اسے بہت سی باتیں سکھا دیتا ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4957]


عروة بن الزبير الأسدي ← عائشة بنت أبي بكر الصديق