صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
7. باب فضل دور الأنصار:
باب: انصار کے گھرانوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3790
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ الطَّلْحِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أُسَيْدٍ , أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" خَيْرُ الْأَنْصَارِ" , أَوْ قَالَ:" خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ: بَنُو النَّجَّارِ، وَبَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَبَنُو الْحَارِثِ، وَبَنُو سَاعِدَةَ".
ہم سے سعد بن حفص طلحی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے کہ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ مجھے ابواسید رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ انصار میں سب سے بہتر یا انصار کے گھرانوں میں سب سے بہتر بنو نجار، بنو عبدالاشھل، بنو حارث اور بنو ساعدہ کے گھرانے ہیں۔ [صحيح البخاري/كتاب مناقب الأنصار/حدیث: 3790]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
6053
| خير دور الأنصار بنو النجار |
صحيح البخاري |
3790
| خير الأنصار أو قال خير دور الأنصار بنو النجار وبنو عبد الأشهل وبنو الحارث وبنو ساعدة |
صحيح مسلم |
6427
| خير دور الأنصار بنو النجار ثم بنو عبد الأشهل ثم بنو الحارث بن الخزرج ثم بنو ساعدة وفي كل دور الأنصار خير |
صحيح مسلم |
6425
| خير دور الأنصار دار بني النجار ودار بني عبد الأشهل ودار بني الحارث بن الخزرج ودار بني ساعدة والله لو كنت مؤثرا بها أحدا لآثرت بها عشيرتي |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3790 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3790
حدیث حاشیہ:
بنو نجار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہیں انصار میں سب سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو پہلے بنو نجار ہی کے ہاں مہمان ہوئے اس لیے ان کی مزید فضیلت ثابت ہوئی۔
حضرت انس ؓ بھی اسی خاندان سے تھے، اس لیے ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایات زیادہ تھیں۔
حضرت سعد بن عبادؓ قبیلہ خزرج کی شاخ بنوساعدہ سے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سب سے آخر میں بیان کیا تھا چونکہ حضرت سعد بن عبادؓ اس کے سردار تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا صحیح مسلم کی روایت میں اس اجمال کی مزید تفصیل ہے کہ جب حضرت سعد بن عبادؓ نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کا ذکر چوتھے درجے میں کیا ہے تو انھیں غصہ آیا اور آپ کی خدمت میں آنے کے لیے اپنی سواری کے گدھے کو تیار کیا۔
اس پر زین رکھی۔
روانہ ہونے لگے تو ان کے بھتیجے حضرت سہلؓ نے ان سے کہا:
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تردید کرنے جا رہے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
کیا تمھارے شرف کے لیے یہ کافی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور شرف تمھارے قبیلے کو چوتھے درجے پر رکھا ہے جبکہ بہت سے قبائل کا آپ نے اجمالاً ہی ذکر کیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عباد ؓنے اپنے خیال سے رجوع کر لیا اور کہا:
بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے اپنی سورای سے زین اتار کر رکھ دیا۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2746۔
(2512)
بنو نجار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہیں انصار میں سب سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو پہلے بنو نجار ہی کے ہاں مہمان ہوئے اس لیے ان کی مزید فضیلت ثابت ہوئی۔
حضرت انس ؓ بھی اسی خاندان سے تھے، اس لیے ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایات زیادہ تھیں۔
حضرت سعد بن عبادؓ قبیلہ خزرج کی شاخ بنوساعدہ سے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سب سے آخر میں بیان کیا تھا چونکہ حضرت سعد بن عبادؓ اس کے سردار تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا صحیح مسلم کی روایت میں اس اجمال کی مزید تفصیل ہے کہ جب حضرت سعد بن عبادؓ نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کا ذکر چوتھے درجے میں کیا ہے تو انھیں غصہ آیا اور آپ کی خدمت میں آنے کے لیے اپنی سواری کے گدھے کو تیار کیا۔
اس پر زین رکھی۔
روانہ ہونے لگے تو ان کے بھتیجے حضرت سہلؓ نے ان سے کہا:
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تردید کرنے جا رہے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
کیا تمھارے شرف کے لیے یہ کافی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور شرف تمھارے قبیلے کو چوتھے درجے پر رکھا ہے جبکہ بہت سے قبائل کا آپ نے اجمالاً ہی ذکر کیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عباد ؓنے اپنے خیال سے رجوع کر لیا اور کہا:
بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے اپنی سورای سے زین اتار کر رکھ دیا۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2746۔
(2512)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3790]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6427
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ مسلمانوں کی ایک بڑی مجلس میں تھے فر یا:"میں تم کو انصار کا بہترین گھرا نہ بتاؤں؟"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:جی ہاں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فر یا:"بنو عبدالاشہل۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کون ہیں؟فر یا:" بنو نجا ر۔۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6427]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں،
پہلے درجہ پر بنو اشہل کو رکھا گیا ہے،
لیکن حضرت ابو اسید اور ابو حمید رضی اللہ عنہما دونوں،
بنو نجار کو پہلے درجہ پر بیان کرتے ہیں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ جو بنو نجار سے ہیں،
وہ بھی بنو نجار کو پہلے مرتبہ پر بیان کرتے ہیں اور بنو نجار کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب کی والدہ،
بنو نجار سے تھیں اور آپ سب سے پہلے مدینہ میں بنو نجار کے ہاں ہی ٹھہرے تھے،
نیز حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں بنو نجار اور بنو عبدالاشہل کی تقدیم و تاخیر میں اختلاف ہے،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ پہلا درجہ بنو نجار کو حاصل ہے اور بنو اشہل کا دوسرا درجہ ہے۔
(فتح الباری،
ج 7 ص 146-147)
فوائد ومسائل:
اس ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں،
پہلے درجہ پر بنو اشہل کو رکھا گیا ہے،
لیکن حضرت ابو اسید اور ابو حمید رضی اللہ عنہما دونوں،
بنو نجار کو پہلے درجہ پر بیان کرتے ہیں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ جو بنو نجار سے ہیں،
وہ بھی بنو نجار کو پہلے مرتبہ پر بیان کرتے ہیں اور بنو نجار کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب کی والدہ،
بنو نجار سے تھیں اور آپ سب سے پہلے مدینہ میں بنو نجار کے ہاں ہی ٹھہرے تھے،
نیز حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں بنو نجار اور بنو عبدالاشہل کی تقدیم و تاخیر میں اختلاف ہے،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ پہلا درجہ بنو نجار کو حاصل ہے اور بنو اشہل کا دوسرا درجہ ہے۔
(فتح الباری،
ج 7 ص 146-147)
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6427]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6053
6053. حضرت ابو اسید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیلہ انصار میں سے بہتر گھرانہ بنو نجار کا گھرانہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6053]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے قبیلۂ بنو نجار کو اس لیے بہتر قرار دیا کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں بہت جلدی کی تھی جبکہ دوسرے قبائل کچھ تاخیر سے مسلمان ہوئے تھے۔
غیبت کی عمومی تعریف سے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہےاگرچہ بنو نجار کی فضیلت اور برتری بیان کرنا دوسرے قبائل کو ناگوار تھی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس حدیث کے پیش نظر لوگوں کی ایک دوسرے پر برتری کرنا جائز ہے تاکہ اس امر کی بجا آوری ہو کہ لوگوں کو وہ مرتبہ اور مقام دو جس کے وہ حق دار ہیں،اور ایسا کرنا قطعاً غیبت میں داخل نہیں اگرچہ دوسروں کو یہ بات پسند نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 578/10)
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے قبیلۂ بنو نجار کو اس لیے بہتر قرار دیا کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں بہت جلدی کی تھی جبکہ دوسرے قبائل کچھ تاخیر سے مسلمان ہوئے تھے۔
غیبت کی عمومی تعریف سے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہےاگرچہ بنو نجار کی فضیلت اور برتری بیان کرنا دوسرے قبائل کو ناگوار تھی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس حدیث کے پیش نظر لوگوں کی ایک دوسرے پر برتری کرنا جائز ہے تاکہ اس امر کی بجا آوری ہو کہ لوگوں کو وہ مرتبہ اور مقام دو جس کے وہ حق دار ہیں،اور ایسا کرنا قطعاً غیبت میں داخل نہیں اگرچہ دوسروں کو یہ بات پسند نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 578/10)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6053]


أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري ← مالك بن ربيعة الساعدي