English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
17. باب من ترك صبية غيره حتى تلعب به أو قبلها أو مازحها:
باب: دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 5993
حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں خالد بن سعید نے، انہیں ان کے والد نے، ان سے ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأدب/حدیث: 5993]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أمة بنت خالد القرشية، أم خالدصحابي
👤←👥سعيد بن عمرو الأموي، أبو عثمان، أبو عنبسة
Newسعيد بن عمرو الأموي ← أمة بنت خالد القرشية
ثقة
👤←👥خالد بن سعيد القرشي
Newخالد بن سعيد القرشي ← سعيد بن عمرو الأموي
صدوق حسن الحديث
👤←👥عبد الله بن المبارك الحنظلي، أبو عبد الرحمن
Newعبد الله بن المبارك الحنظلي ← خالد بن سعيد القرشي
ثقة ثبت فقيه عالم جواد مجاهد جمعت فيه خصال الخير
👤←👥حبان بن موسى المروزي، أبو محمد
Newحبان بن موسى المروزي ← عبد الله بن المبارك الحنظلي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
5993
سنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر يعني من بقائها
صحيح البخاري
5845
أبلي وأخلقي مرتين فجعل ينظر إلى علم الخميصة ويشير بيده إلي ويقول يا أم خالد هذا سنا والسنا بلسان الحبشية الحسن قال إسحاق حدثتني امرأة من أهلي أنها رأته على أم خالد
صحيح البخاري
3874
كساني رسول الله خميصة لها أعلام فجعل رسول الله يمسح الأعلام بيده ويقول سناه سناه
صحيح البخاري
3071
سنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر
صحيح البخاري
5823
أبلي وأخلقي وكان فيها علم أخضر أو أصفر فقال يا أم خالد هذا سناه وسناه بالحبشية حسن
سنن أبي داود
4024
أبلي وأخلقي مرتين وجعل ينظر إلى علم في الخميصة أحمر أو أصفر ويقول سناه سناه يا أم خالد وسناه في كلام الحبشة الحسن
مسندالحميدي
339
سناه سناه
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5993 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5993
حدیث حاشیہ:
حضرت ام خالد، خالد بن سعید بن عاص اموی کی ماں ہیں۔
حبش میں پیدا ہوئی پھر مدینہ لائی گئی بعد بلوغت حضرت زبیر بن عوام سے ان کی پہلی شادی ہوئی (رضي اللہ عنھا)
۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5993]

الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5993
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5993 کا باب: «بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بچے کے کھیلنے اور اس کا بوسہ لینے اور ہنسنے پر قائم فرمایا، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں باب کے ایک جزء کے ساتھ مناسبت قائم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے بوسہ دینے پر باب میں ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں سرے سے ہی بوسہ کا ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الخبر المذكور فى الباب للتقبيل ذكر، والذي يظهر لي أن ذكر المزح بعد التقبيل من العام بعد الخاص، و أن الممازحة بالقول و الفعل مع الصغيرة إنما يقصد به التأنيس و التقبيل من جملة ذالك.» (1)
اسی حدیث منقول میں تقبیل کا ذکر نہیں ہے تو محتمل یہ ہے کہ جب اس بچی کو اپنے جسم مبارک کے چھونے سے روکا نہیں تو یہ تقبیل کی طرح ہوا، مجھے جو ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تقبیل کے بعد ذکر مزاح عام بعد الخاص کی قبیل سے ہے کہ صغیرہ کے ساتھ قول و فعل کے ذریعہ ممازحت سے غرض اس کی تانیس ہوتی ہے، تقبیل (بوسہ لینا) ان جملہ امور میں سے ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بچی کے چھونے کو بوسہ لینے پر قیاس فرمایا ہو، چنانچہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«جعل تمكين النبى صلى الله عليه وسلم لها من ذالك يتنزّل منزلة ابتدائه بتناولها لتعلب، و قاس قبلة الصغيرة على المماسة.» (2)
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
غالب یہ ہے کہ بچی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم سے کھیلا، اسی سے مزح اور کھیلنا ثابت ہوا، اور اسی طرح بچی کو بوسہ دینا بھی، جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ (3)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ليس فى حديث الباب للتقبيل ذكر فيحتمل أن يكون لما لم ينهها عن مس جسده صار كالتقبيل.» (4)
ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے اس میں بوسے کا ذکر نہیں ہے، احتمال اس بات کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے مبارک جسم کو ہاتھ لگانے سے منع نہیں فرمایا تو بس یہ بوسے کی طرح ہوا۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل اس باب کے تحت صرف قیاس فرمایا ہے تقبیل کے لیے، لیکن بعد والے باب میں مکمل دلیل سے وضاحت فرما دی ہے جو کہ اس باب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے بعد یہ باب قائم فرمایا: «باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته» ، لہذا باب «من ترك صبية . . . . .» میں بوسے پر قیاس فرمایا اور بعد کے باب میں اس پر دلیل پیش کر دی۔ لہذا اس قسم کی عادات امام بخاری رحمہ اللہ کی معروف ہیں۔ اس حقیر نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عادت کو انواع التراجم میں بھی شامل کیا ہے۔
[عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 174]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5993
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہما حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی کی والدہ ماجدہ ہیں۔
وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے ایک قمیص پہنائی تھی اور فرمایا:
اسے خوب پرانی کرو۔
وہ قمیص دیر تک ان کے پاس رہی۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ قمیص عرصۂ دراز ان کے پاس رہی حتی کہ وہ سیا ہو گئیں، یعنی ام خالد رضی اللہ عنہما بہت مدت تک زندہ رہیں حتی کہ ان کی رنگت سیاہ ہو گئی۔
(2)
جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں اور آپ نے بطور مزاح سنه سنه کہا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بچی سے مزاح کرسکتا ہے اگرچہ وہ محرمہ نہ ہو۔
اگر مزاح کرتے وقت نیت میں فتور ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے مبنی برحقیقت مزاح پر بوسے کو قیاس کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھوٹی بچی سے قولی اور عملی مزاح سے مراد بچی کو اپنے ساتھ مانوس کرنا ہوتا ہے۔
اور بوسہ لینا بھی اسی قسم سے ہے۔
(فتح الباري: 10/522)
امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان میں تقبیل کے بعد مزاح کا ذکر کرنا، خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی طرح ہے۔
والله أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5993]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4024
نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: اے ام خالد! «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4024]
فوائد ومسائل:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔
روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔
مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4024]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5823
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ سناہ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ:
ام خالد حبش ہی میں پیدا ہوئی تھیں وہ حبشی زبان جاننے لگی تھیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر حبشی زبان ہی میں اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5823]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5845
5845. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے جن میں ایک سیاہ شال بھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خیال کے مطابق یہ شال کسے دی جائے؟ صحابہ کرام خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا پھر آپ نے مجھے وہ شال اپنے ہاتھ سے پہنائی اور دعا فرمائی: اسے پرانا اور بوسیدہ کرو۔ یعنی دیر تک جیتی رہو۔ آپ نے دو مرتبہ دعا فرمائی۔ پھر آپ اس شال کے نقش ونگار دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے ام خالد! سناہ سناہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کیا ہی خوبصورت کے ہیں(راوئ حدیث) اسحاق نے کہا: میرے اہل خانہ میں سے ایک عورت نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے ام خالد‬ ؓ پ‬ر وہ شال دیکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5845]
حدیث حاشیہ:
نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ خدا تم کو یہ کپڑا مبارک کرے تم یہ کپڑا خوب پرانا کر کے پھاڑو یعنی تمہاری عمر درازہو۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5845]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3071
3071. حضرت اُم خالد بنت خالد بن سعید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنہ، سنہ۔ حبشی زبان میں اس کے معنیٰ ہیں۔ اچھا۔ حضرت اُم خالد ؓ کہتی ہیں، پھر میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹ پلائی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑدو۔ پھر فرمایا: کرتا پرانا کرو اور اور اسے پہن کر پھاڑو۔ پھر کرتا پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔ (آپ نے درازی عمری کی دعا فرمائی۔) حضرت عبد اللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں کہ وہ قمیص اتنی دیر تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3071]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے ہے نکلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ سنہ فرمایا جو حبشی زبان ہے امام خالد ؓ اتنے دنوں زندہ رہی کہ وہ کپڑا پہنتے پہنتے کالا ہو گیا۔
یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3071]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3874
3874. حضرت ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب میں سرزمین حبشہ سے واپس آئی تو اس وقت میں چھوٹی بچی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اوڑھنے کے لیے ایک چادر عنایت فرمائی جس میں نقوش تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک ان نقوش پر پھیرتے ہوئے فرما رہے تھے: یہ چادر اچھی ہے۔ یہ چادر خوبصورت ہے۔ امام حمیدی ؒ نے کہا ہے کہ سناه کے معنی اچھا اور خوبصورت کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3874]
حدیث حاشیہ:

حضرت ام خالد ؓ، سیدنا خالد بن سعید کی بیٹی اور خالد بن زبیر بن عوام ؓ کی والدہ ہیں۔
اس لیے وہ ام خالد ؓ بھی ہیں۔
اور بنت خالد بھی۔

لفظ سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت حبشہ کی مناسب سے اس ملک کی زبان کالفظ استعمال فرمایا جس کے معنی خوبصورت اور اچھا کے ہیں۔

ان کے والد گرامی حضرت خالد بن سعید بن عاص ؓ نے حبشے کی طرف دوسری ہجرت میں شمولیت کی۔
ام خالد کی پیدائش حبشے میں ہوئی تو اس کا نام (أمة)
رکھا گیا۔
انھوں نے ہی اس کی کنیت ام خالد رکھی تھی۔
ان کی والدہ کا نام امینہ بنت خلف ہے۔
(فتح الباري: 239/7)

ایک روایت میں ہے کہ ام خالد نے کہا:
میں نے اس وقت زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنه سنه کے الفاظ استعمال فرمائے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3071)
ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اور قمیص دونوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے ہوں۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3874]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5823
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ سناہ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں اور حبشی زبان جانتی تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر حبشی زبان میں ہی اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کے سرخ یا زرد نقش و نگار دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے:
سناہ سناہ، یعنی بہت خوبصورت ہے، بہت خوبصورت ہے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4024) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی:
اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد تمہیں اور بھی عنایت فرمائے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020) (3)
اس حدیث میں کالے رنگ کے کمبل کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا، عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5823]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5845
5845. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے جن میں ایک سیاہ شال بھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خیال کے مطابق یہ شال کسے دی جائے؟ صحابہ کرام خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا پھر آپ نے مجھے وہ شال اپنے ہاتھ سے پہنائی اور دعا فرمائی: اسے پرانا اور بوسیدہ کرو۔ یعنی دیر تک جیتی رہو۔ آپ نے دو مرتبہ دعا فرمائی۔ پھر آپ اس شال کے نقش ونگار دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے ام خالد! سناہ سناہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کیا ہی خوبصورت کے ہیں(راوئ حدیث) اسحاق نے کہا: میرے اہل خانہ میں سے ایک عورت نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے ام خالد‬ ؓ پ‬ر وہ شال دیکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5845]
حدیث حاشیہ:
(1)
نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ لباس بابرکت بنائے۔
تم یہ کپڑا پرانا کر کے اتارو، یعنی تمہاری عمر لمبی ہو۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا نے لمبی عمر پائی تھی۔
ایک حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام میں جب کوئی نیا لباس پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی:
(تبلي و يخلف الله تعالی)
اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بعد اور بھی عنایت کرے۔
اس کے علاوہ بھی دعائیں منقول ہیں۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5845]