English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
94. باب ما جاء فى زعموا:
باب: «زعموا» کہنے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 6158
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ"، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ" قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَاكَ ضُحًى.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابو مرہ نے خبر دی کہ انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر دیا ہے۔ میں نے سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام ہانی! مرحبا ہو۔ جب آپ غسل کر چکے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعات پڑھیں۔ آپ اس وقت ایک کپڑے میں جسم مبارک کو لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بھائی (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کا خیال ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جسے میں نے امان دے رکھی ہے۔ یعنی فلاں بن ہبیرہ کو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے امان دی اسے ہم نے بھی امان دی۔ ام ہانی نے بیان کیا کہ یہ نماز چاشت کی تھی۔ [صحيح البخاري/كتاب الأدب/حدیث: 6158]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥فاختة بنت أبي طالب الهاشمية، أم هانئصحابية
👤←👥يزيد مولى عقيل، أبو مرة
Newيزيد مولى عقيل ← فاختة بنت أبي طالب الهاشمية
ثقة
👤←👥سالم بن أبي أمية القرشي، أبو النضر
Newسالم بن أبي أمية القرشي ← يزيد مولى عقيل
ثقة ثبت
👤←👥مالك بن أنس الأصبحي، أبو عبد الله
Newمالك بن أنس الأصبحي ← سالم بن أبي أمية القرشي
رأس المتقنين وكبير المتثبتين
👤←👥عبد الله بن مسلمة الحارثي، أبو عبد الرحمن
Newعبد الله بن مسلمة الحارثي ← مالك بن أنس الأصبحي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
3171
أجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذلك ضحى
صحيح البخاري
6158
أجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذاك ضحى
صحيح مسلم
1669
أجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذلك ضحى
جامع الترمذي
1579
أجرت رجلين من أحمائي فقال رسول الله قد أمنا من أمنت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6158 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6158
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ ام ہانی نے زعم ابن أمي کہا تولفظ زعموا کہنا جائز ہوا۔
فلاں سے مراد حارث بن ہشام یا عبداللہ بن ابی ربیعہ یا زہیر بن ابی امیہ تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی اسٹیٹ میں اگر مسلمان عورت بھی کسی کافر کو ذمی بنا کر پناہ دے دے تو قانوناً اس کی پناہ کو لاگو کیا جائے گا کیونکہ اس بارے میں عورت بھی ایک مسلمان مرد جتنا ہی حق رکھتی ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا ان میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6158]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6158
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ''زَعَمَ ابن أُمي'' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ''زَعَمُوا'' استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر اس کا استعمال ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرما دیتے۔
(2)
لفظ زَعَمَ قول کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا:
اے محمد! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے کہا کہ آپ خود کو اللہ کے رسول کہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
اس نے سچ کہا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 102(12)
الفاظ یہ ہیں:
(أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك؟ قال:
صدق)
بہرحال لفظ زعم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6158]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1669
پردے کے مقام پر غسل کرنا
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوطالب کی بیٹی ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ایک کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ کئے ہوئے تھیں۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون؟ میں نے عرض کیا کہ ابوطالب کی بیٹی ام ھانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی۔ . . . [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ...: 1669]
تخريج الحديث:
[193۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 4 باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به 280، مسلم 336، ترمذي 2734]
فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ کسی پردے کے مقام پر غسل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ عورت کا احترام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کو قبول فرمایا ہے۔
[جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 193]

الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1579
غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1579]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے،
اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
قد أجرنا من أجرت يا أم هاني سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے،
اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1579]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1669
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھی۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہانے سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور آٹھ رکعات نماز پڑھی۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1669]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا با پردہ نہانے والے شخص کو سلام کہنا اور اس سے ضروری گفتگو کرنا جائز ہے۔
جب کہ وہ کپڑا باندھے ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹی کے سامنے برہنہ نہیں ہو سکتے تھے۔
(2)
اگر کسی انسان کو عورت پناہ دے دے تو وہ نافذ العمل ہو گی۔
اس کی پناہ کو توڑنا درست نہیں ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا یہی موقف ہے،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کی دی ہوئی پناہ امام (امیر)
کی صواب دید پر موقوف ہے۔
وہ برقرار رکھے یا توڑ دے اس کی مرضی ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1669]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3171
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ:
ہبیرہ ام ہانی کے خاوند تھے، جعدہ ان کے بیٹے تھے۔
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت علی ؓ اپنے بھانجے کو کیوں مارتے، بعضوں نے کہا فلاں ابن ہبیرہ سے حارث بن ہشام محرومی مراد ہیں۔
غرض حدیث سے یہ نکلا کہ عورت کا پناہ دینا درست ہے۔
ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔
بعضوں نے کہا امام کو اختیار ہے۔
چاہے اس امان کو منظور کرے چاہے نہ کرے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3171]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3171
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ:

حضرت ام ہانی ؓ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئیں۔
اس وقت وہ ہبیرہ کے نکاح میں تھیں جن سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔
ان میں سے ایک کانام ہانی تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ام ہانی تجویز ہوئی۔

ابن ماحبشون کا کہنا ہے:
عورت کا امان دینا مستقل حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ امام کی اجازت پر موقوف ہے جبکہ جمہور کا اس امر پر اجماع ہے کہ عورت کا امان دینا جائز اور صحیح ہے اور مستقل حیثیت رکھتاہے۔
امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پناہ کو برقراررکھا، نیز حضرت زینب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شوہر نامدار حضرت ابوالعاص کو پناہ دی تھی۔
اس سے معلوم ہواکہ جسے عورت پناہ دے دے اسے بھی قتل کرنا حرام ہے۔
(عمدة القاری: 521/10)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3171]