صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
8. باب جواز لعن الشيطان في اثناء الصلاة والتعوذ منه وجواز العمل القليل في الصلاة:
باب: نماز کے اندر شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور عمل قلیل کرنا درست ہے۔
ترقیم عبدالباقی: 542 ترقیم شاملہ: -- 1211
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ: " أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ "، ثُمَّ قَالَ: " أَلْعَنُكَ بِلَعْنَة اللَّهِ "، ثَلَاثًا، وَبَسَطَ يَدَهُ، كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ، شَيْئًا لَمْ نَسْمَعْكَ تَقُولُهُ قَبْلَ ذَلِكَ، وَرَأَيْنَاكَ بَسَطْتَ يَدَكَ، قَالَ: إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ، جَاءَ بِشِهَابٍ مِنَ نَارٍ لِيَجْعَلَهُ فِي وَجْهِي، فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قُلْتُ: " أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ التَّامَّةِ، فَلَمْ يَسْتَأْخِرْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ "، ثُمَّ أَرَدْتُ أَخْذَهُ، وَاللَّهِ لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِينَا سُلَيْمَانَ، لَأَصْبَحَ مُوثَقًا يَلْعَبُ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام (کی حالت) میں تھے کہ ہم نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں۔“ آپ نے یہ تین بار کہا اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، گویا کہ آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے جو اس سے پہلے آپ کو کبھی کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ (آگے) بڑھایا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، میں نے تین دفعہ «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ» ”میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں“ کہا، پھر میں نے تین بار کہا: ”میں تجھ پر اللہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں۔“ وہ پھر بھی پیچھے نہ ہٹا تو میں نے اسے پکڑنے کا ارادہ کر لیا۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ والوں کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔“ [صحيح مسلم/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 1211]
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں تجھ سے اللّٰہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تجھ پر اللّٰہ کی لعنت بھیجتا ہوں“، تین بار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے ہم نے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے، ہم نے اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ بڑھاتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰہ کا دشمن ابلیس، آگ کا ایک انگارا لے کر آیا تاکہ میرے چہرے پر ڈال دے تو میں نے تین دفعہ (اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْكَ) کہا، پھر میں نے تین دفعہ کہا: ”میں تجھ پر اللّٰہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں“، وہ پیچھے نہ ہٹا پھر میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کر لیا، اللّٰہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان عَلیہِ السَّلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔ [صحيح مسلم/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 1211]
ترقیم فوادعبدالباقی: 542
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1211 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1211
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جن ایک مستقل اور انسانوں سے الگ مخلوق ہے جیسا کہ جنوں کا وجود قرآن مجید سے بھی ثابت ہے چونکہ جن عام لوگوں کی نگاہوں سے مستور اور مخفی رہتے ہیں اس لیے ان کو یہ نام ملا۔
(2)
جنوں کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے اور نہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کبھی کبھار ان کو دیکھنا ممکن ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو دیکھا اس کا گلا گھونٹا دھکا دیا اور اس کو باندھنے کا ارادہ فرمایا۔
(3)
جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج میں داخل تھے اور ان کے بڑے بڑے مشکل اور زور طلب کام کرتے تھے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو پکڑ کر ستون کے ساتھ باندھ دیتے تو یہ اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا کہ جنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدرت و اقتدار حاصل ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔
(4)
کسی کو جن اگر تنگ کریں تو وہ ان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور نماز میں بھی تَعَوَّذْ (اللہ کی پناہ)
لینا جائز ہے جنوں کے حملہ سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہنا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جن ایک مستقل اور انسانوں سے الگ مخلوق ہے جیسا کہ جنوں کا وجود قرآن مجید سے بھی ثابت ہے چونکہ جن عام لوگوں کی نگاہوں سے مستور اور مخفی رہتے ہیں اس لیے ان کو یہ نام ملا۔
(2)
جنوں کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے اور نہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کبھی کبھار ان کو دیکھنا ممکن ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو دیکھا اس کا گلا گھونٹا دھکا دیا اور اس کو باندھنے کا ارادہ فرمایا۔
(3)
جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج میں داخل تھے اور ان کے بڑے بڑے مشکل اور زور طلب کام کرتے تھے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو پکڑ کر ستون کے ساتھ باندھ دیتے تو یہ اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا کہ جنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدرت و اقتدار حاصل ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔
(4)
کسی کو جن اگر تنگ کریں تو وہ ان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور نماز میں بھی تَعَوَّذْ (اللہ کی پناہ)
لینا جائز ہے جنوں کے حملہ سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہنا ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1211]


أبو إدريس الخولاني ← عويمر بن مالك الأنصاري