صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
35. باب لا يعيب الطعام:
باب: کھانے کا عیب بیان نہیں کرنا چاہیئے۔
ترقیم عبدالباقی: 2064 ترقیم شاملہ: -- 5382
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، وَعُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو داود الحفري كلهم، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
سفیان نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔ [صحيح مسلم/كتاب الأشربة/حدیث: 5382]
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد کی سند سے، اعمش ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم/كتاب الأشربة/حدیث: 5382]
ترقیم فوادعبدالباقی: 2064
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5382 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5382
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ہر قسم کا حلال اور پاک کھانا،
عیب سے مبرا اور پاک ہے،
ہاں بعض کھانوں سے انسان کو طبعی مناسبت نہیں ہوتی،
اس لیے نفس طعام پر اعتراض کرنا جائز نہیں ہے،
ہاں اگر کھانے پکارنے والے نے کھانا درست نہیں پکایا،
اس میں نمک،
مرچ کم و بیش ڈالا ہے،
یا اس کو اچھی طرح پکایا نہیں ہے تو پھر اگر اس کی دل شکنی مقصود نہیں ہے،
بلکہ اصلاح مقصود ہے تاکہ وہ آئندہ خیال رکھے،
تو پھر پیار و محبت کے ساتھ آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن اگر یافت کی تحقیر مقصود ہے یا دعوت کرنے والے کی شکر گزاری سے انحراف کے لیے ہے کہ کیا کھانا کھلایا ہے،
یا پکانے والے کا مذاق اڑانا مقصود ہے تو پھر جائز نہیں ہے،
ہاں انسان اپنی طبعی کراہت کا اظہار کر سکتا ہے کہ میں طبعی طور پر اس کھانے کو پسند نہیں کرتا،
اس لیے نہیں کھا رہا۔
فوائد ومسائل:
ہر قسم کا حلال اور پاک کھانا،
عیب سے مبرا اور پاک ہے،
ہاں بعض کھانوں سے انسان کو طبعی مناسبت نہیں ہوتی،
اس لیے نفس طعام پر اعتراض کرنا جائز نہیں ہے،
ہاں اگر کھانے پکارنے والے نے کھانا درست نہیں پکایا،
اس میں نمک،
مرچ کم و بیش ڈالا ہے،
یا اس کو اچھی طرح پکایا نہیں ہے تو پھر اگر اس کی دل شکنی مقصود نہیں ہے،
بلکہ اصلاح مقصود ہے تاکہ وہ آئندہ خیال رکھے،
تو پھر پیار و محبت کے ساتھ آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن اگر یافت کی تحقیر مقصود ہے یا دعوت کرنے والے کی شکر گزاری سے انحراف کے لیے ہے کہ کیا کھانا کھلایا ہے،
یا پکانے والے کا مذاق اڑانا مقصود ہے تو پھر جائز نہیں ہے،
ہاں انسان اپنی طبعی کراہت کا اظہار کر سکتا ہے کہ میں طبعی طور پر اس کھانے کو پسند نہیں کرتا،
اس لیے نہیں کھا رہا۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5382]


سفيان الثوري ← سليمان بن مهران الأعمش