صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
14. باب الدعوات والتعوذ
باب: دعاؤں اور اعوذ باللہ کا بیان۔
ترقیم عبدالباقی: 589 ترقیم شاملہ: -- 6872
وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ابومعاویہ اور وکیع نے ہمیں ہشام سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ [صحيح مسلم/كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار/حدیث: 6872]
یہی روایت امام صاحب کو ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم/كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار/حدیث: 6872]
ترقیم فوادعبدالباقی: 589
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥هشام بن عروة الأسدي، أبو المنذر، أبو عبد الله، أبو بكر | ثقة إمام في الحديث | |
👤←👥وكيع بن الجراح الرؤاسي، أبو سفيان وكيع بن الجراح الرؤاسي ← هشام بن عروة الأسدي | ثقة حافظ إمام | |
👤←👥محمد بن خازم الأعمى، أبو معاوية محمد بن خازم الأعمى ← وكيع بن الجراح الرؤاسي | ثقة | |
👤←👥محمد بن العلاء الهمداني، أبو كريب محمد بن العلاء الهمداني ← محمد بن خازم الأعمى | ثقة حافظ |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6872 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6872
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فتنة النار:
آگ کی مصیبت اور اس کی آزمائش۔
فتنة القبر سے مراد بھی،
قبر کی تکالیف ہیں،
جو کم درجہ کے مجرمین کے لیے ہیں اور عذاب قبر اور عذاب نار سے مراد،
وہ عذاب اور دکھ،
درد ہے،
جو اول درجہ کے مجرموں یعنی کافروں اور مشرکوں کو ہو گا،
جس کی طرف سورۃ ملک میں اشارہ کیا گیا ہے:
(كلماالقي فيها فوج سالهم خزنتها الم ياتكم نذير)
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کے دکھ،
درد اور تکلیف سے پناہ مانگنی چاہیے کہ وہ ہر قسم کے گناہوں،
شرک و کفر اور چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ رکھے،
اگر سرزد ہو جائیں تو توبہ و استغفار کی توفیق بخشے،
فتنة الغني اور فتنة الفقر،
دولت مندی اور فقر و محتاجی کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ دولت مندی اور خوش حالی عنایت فرمائے تو اس کے سبب فخر و غرور اور تکبر و گھمنڈ پیدا نہ ہو اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق ملے،
جیسا کہ مالدار صحابہ عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہما کو ملی اور اس کے سبب انہوں نے بلند درجات حاصل کیے اور اگر فقر و فاقہ میں مبتلا کرے تو صبر و قناعت عنایت فرمائے،
صبر و قناعت سے محروم نہ رکھے،
غنا اور فقر کے یہی شر ہیں،
جس سے پناہ مطلوب ہے،
غناء کی صورت میں اسراف و تبذیر کا بھی خطرہ ہے اور مال و دولت کے حقوق کی ادائیگی سے بخل و کنجوسی کا بھی،
نیز حلال و حرام کے امتیاز کے نظر انداز کر دینے کا بھی اور فقر کی صورت میں بے صبری کے ساتھ،
جزع و فزع اور ناجائز ذرائع سے مال کمانے کا خطرہ ہے اور مسیح دجال کا فتنہ اور آزمائش بھی بہت بڑی ہے،
جس سے قیامت کے قریب کے لوگوں کو گزرنا ہو گا،
اس طرح آپ نے گناہوں کے اثرات دھونے اور دل کے پاک صاف کرنے اور گناہوں سے بہت دور رکھے جانے کی دعا کی تلقین کی ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت کے بغیر گناہوں سے بچنا ممکن نہیں ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی اور ان کے اثرات کو دور کر سکتا ہے،
گناہوں کی سوزش و حرارت کی بنا پر ٹھنڈا پانی استعمال کرنے کی دعا مانگی ہے،
کسل و سستی کی بنا پر انسان اپنے دنیوی اور دینی فرائض کی سرانجام دہی میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے،
معاش اور معاد دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں،
مغرم،
قرضہ بھی حساس اور صاحب شعور انسان کے لیے زندگی کے لطف سے محرومی اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے،
جس سے اس کی قوت کار متاثر ہوتی ہے اور وہ دنیا کی سعادتوں اور آخرت کی بہت سی کامرانیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
مأثم،
گناہ،
کی صورت میں بھی صاحب ضمیر انسان بے قراری اور اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہرم انتہائی بڑھاپا بھی انسان کو بالکل ہی اذکار رفتہ کرتا ہے اور دوسروں کا دست نگر بن جاتا ہے،
ہوش و حواس میں بھی کمزوری اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے،
جس دین و دنیا دونوں متاثر ہوتے ہیں۔
مفردات الحدیث:
فتنة النار:
آگ کی مصیبت اور اس کی آزمائش۔
فتنة القبر سے مراد بھی،
قبر کی تکالیف ہیں،
جو کم درجہ کے مجرمین کے لیے ہیں اور عذاب قبر اور عذاب نار سے مراد،
وہ عذاب اور دکھ،
درد ہے،
جو اول درجہ کے مجرموں یعنی کافروں اور مشرکوں کو ہو گا،
جس کی طرف سورۃ ملک میں اشارہ کیا گیا ہے:
(كلماالقي فيها فوج سالهم خزنتها الم ياتكم نذير)
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کے دکھ،
درد اور تکلیف سے پناہ مانگنی چاہیے کہ وہ ہر قسم کے گناہوں،
شرک و کفر اور چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ رکھے،
اگر سرزد ہو جائیں تو توبہ و استغفار کی توفیق بخشے،
فتنة الغني اور فتنة الفقر،
دولت مندی اور فقر و محتاجی کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ دولت مندی اور خوش حالی عنایت فرمائے تو اس کے سبب فخر و غرور اور تکبر و گھمنڈ پیدا نہ ہو اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق ملے،
جیسا کہ مالدار صحابہ عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہما کو ملی اور اس کے سبب انہوں نے بلند درجات حاصل کیے اور اگر فقر و فاقہ میں مبتلا کرے تو صبر و قناعت عنایت فرمائے،
صبر و قناعت سے محروم نہ رکھے،
غنا اور فقر کے یہی شر ہیں،
جس سے پناہ مطلوب ہے،
غناء کی صورت میں اسراف و تبذیر کا بھی خطرہ ہے اور مال و دولت کے حقوق کی ادائیگی سے بخل و کنجوسی کا بھی،
نیز حلال و حرام کے امتیاز کے نظر انداز کر دینے کا بھی اور فقر کی صورت میں بے صبری کے ساتھ،
جزع و فزع اور ناجائز ذرائع سے مال کمانے کا خطرہ ہے اور مسیح دجال کا فتنہ اور آزمائش بھی بہت بڑی ہے،
جس سے قیامت کے قریب کے لوگوں کو گزرنا ہو گا،
اس طرح آپ نے گناہوں کے اثرات دھونے اور دل کے پاک صاف کرنے اور گناہوں سے بہت دور رکھے جانے کی دعا کی تلقین کی ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت کے بغیر گناہوں سے بچنا ممکن نہیں ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی اور ان کے اثرات کو دور کر سکتا ہے،
گناہوں کی سوزش و حرارت کی بنا پر ٹھنڈا پانی استعمال کرنے کی دعا مانگی ہے،
کسل و سستی کی بنا پر انسان اپنے دنیوی اور دینی فرائض کی سرانجام دہی میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے،
معاش اور معاد دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں،
مغرم،
قرضہ بھی حساس اور صاحب شعور انسان کے لیے زندگی کے لطف سے محرومی اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے،
جس سے اس کی قوت کار متاثر ہوتی ہے اور وہ دنیا کی سعادتوں اور آخرت کی بہت سی کامرانیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
مأثم،
گناہ،
کی صورت میں بھی صاحب ضمیر انسان بے قراری اور اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہرم انتہائی بڑھاپا بھی انسان کو بالکل ہی اذکار رفتہ کرتا ہے اور دوسروں کا دست نگر بن جاتا ہے،
ہوش و حواس میں بھی کمزوری اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے،
جس دین و دنیا دونوں متاثر ہوتے ہیں۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6872]


وكيع بن الجراح الرؤاسي ← هشام بن عروة الأسدي