الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 341
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، امله علي، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني ، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري : ان عمر قام خطيبا، فحمد الله واثنى عليه، وذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، ثم قال: إني رايت رؤيا كان ديكا نقرني نقرتين، ولا ارى ذلك إلا لحضور اجلي، وإن ناسا يامرونني ان استخلف، وإن الله عز وجل لم يكن ليضيع خلافته ودينه، ولا الذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر فالخلافة شورى في هؤلاء الرهط الستة الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فايهم بايعتم له، فاسمعوا له واطيعوا، وقد عرفت ان رجالا سيطعنون في هذا الامر، وإني قاتلتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا، فاولئك اعداء الله الكفرة الضلال. وإني والله ما ادع بعدي شيئا هو اهم إلي من امر الكلالة، ولقد سالت نبي الله صلى الله عليه وسلم عنها، فما اغلظ لي في شيء قط ما اغلظ لي فيها، حتى طعن بيده او بإصبعه في صدري، او جنبي، وقال:" يا عمر تكفيك الآية التي نزلت في الصيف، التي في آخر سورة النساء"، وإني إن اعش اقض فيها قضية لا يختلف فيها احد يقرا القرآن، او لا يقرا القرآن. ثم قال:" اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، فإني بعثتهم يعلمون الناس دينهم، وسنة نبيهم، ويقسمون فيهم فيئهم، ويعدلون عليهم، وما اشكل عليهم يرفعونه إلي". ثم قال: يا ايها الناس، إنكم تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين، هذا الثوم والبصل، لقد كنت ارى الرجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجد ريحه منه، فيؤخذ بيده حتى يخرج به إلى البقيع، فمن كان آكلهما لا بد، فليمتهما طبخا، قال: فخطب بها عمر يوم الجمعة، واصيب يوم الاربعاء، لاربع ليال بقين من ذي الحجة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، أَمَلَّهُ عَلَيَّ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ قَامَ خَطِيبًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلَا أُرَى ذَلِكَ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ نَاسًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ خِلَافَتَهُ وَدِينَهُ، وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَأَيُّهُمْ بَايَعْتُمْ لَهُ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، وَإِنِّي قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ، وَلَقَدْ سَأَلْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ قَطُّ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا، حَتَّى طَعَنَ بِيَدِهِ أَوْ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، أَوْ جَنْبِي، وَقَالَ:" يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ الْآيَةُ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الصَّيْفِ، الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ"، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً لَا يَخْتَلِفُ فِيهَا أَحَدٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، أَوْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنِّي بَعَثْتُهُمْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ، وَيَقْسِمُونَ فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيُعَدِّلُونَ عَلَيْهِمْ، وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ يَرْفَعُونَهُ إِلَيَّ". ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ، فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا، قَالَ: فَخَطَبَ بِهَا عُمَرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو نہ ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت، جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا: لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے)۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، سعيد بن أبى عروبة اختلط ، وقد توبع، م: 567


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.