(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، حدثني عطاء، عن عبيد بن عمير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" لم يكن على شيء من النوافل اشد معاهدة منه على الركعتين قبل الصبح". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے کی دونوں کی رکعتوں کا رکھتے تھے۔
Narrated Aishah: The Messenger of Allah ﷺ was more particular about observing the supererogatory rak'ahs before the dawn prayer than about observing any of the other supererogatory prayers.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1249
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1169) صحيح مسلم (724)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 283
´نفل نماز کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام فجر کی دو سنتوں کا رکھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ہے کہ نماز فجر کی دو (رکعتیں)(سنتیں) «دنيا وما فيها» سے بہتر ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 283»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب تعاهد ركعتي الفجر، حديث:1169، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724، وحديث "ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها" أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:725.»
تشریح: 1. اس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن رواتب میں سے فجر کی دو سنتوں کا جتنا التزام فرمایا اتنا دوسری سنتوں کا اہتمام نہیں کیا حتی کہ سفر و حضر میں بھی انھیں کبھی نہیں چھوڑا۔ ان دو سنتوں کی اتنی تاکید کے پیش نظر احناف نے تو جماعت کھڑی ہو جانے کے باوجود ان کو فرضوں سے پہلے پڑھنا لازمی قرار دے رکھا ہے‘ حالانکہ یہ صراحتاً حدیث کے خلاف ہے کیونکہ فرض جماعت کے ہوتے ہوئے دوسری کوئی نماز پڑھنا درست نہیں‘ چنانچہ آپ کا فرمان ہے: «إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلاَّ الْمَکْتُوبَۃَ»”جب (نماز کے لیے) اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔ “(صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ باب کراھۃ الشروع في نافلۃ…‘ حدیث:۷۱۰) 2.بیہقی کی وہ روایت کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے الا یہ کہ صبح کی سنتیں ہوں‘ بالکل بے اصل اور ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (عون المعبود)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 283
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1254
´فجر کی دو رکعت سنت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے کی دونوں کی رکعتوں کا رکھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1254]
1254۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں سفر میں بھی ترک نہیں فرماتے تھے، اس لیے بعض محدثین مثلاًً حسن بصری رحمہ اللہ انہیں واجب کہتے ہیں، ایسے ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی۔ اس سے واضح ہوا کہ دوسری سنتوں کے مقابلے میں فجر کی ان دو سنتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1254