English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن نسائي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن نسائی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (5761)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
0. باب : اب كيف صلاة الكسوف
باب: سورج گرہن کی نماز کی کیفیت کا بیان؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1468
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُلَيَّةَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عِنْدَ كُسُوفِ الشَّمْسِ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ" , وَعَنْ عَطَاءٍ مِثْلُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن لگنے پر آٹھ رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی اور عطاء نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اسی کے مثل روایت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1468]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الکسوف 4 (908)، سنن ابی داود/الصلاة 262 (1183)، سنن الترمذی/الصلاة 279 (الجمعة 44) (560)، (تحفة الأشراف: 5697)، مسند احمد 1/225، 346، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1567) (شاذ) (حبیب بن ابی ثابت مدلس کثیر الارسال ہیں، یہ حدیث انہوں نے ابن عباس سے نہیں سنی ہے، نیز یہ روایت خود ابن عباس سے مروی دیگر روایات کے خلاف ہے، دیکھئے حدیث رقم: 1470)»
وضاحت: ۱؎: عطاء کی روایت جس کی طرف امام نسائی نے اشارہ کیا ہے، حقیقت میں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی نہیں ہے، بلکہ وہ مرسل ہے، جیسا کہ امام مزی نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: تحفہ الأشراف: ۱۹۰۴۹۔
قال الشيخ الألباني: شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥عبد الله بن العباس القرشي، أبو العباسصحابي
👤←👥طاوس بن كيسان اليماني، أبو عبد الرحمن
Newطاوس بن كيسان اليماني ← عبد الله بن العباس القرشي
ثقة إمام فاضل
👤←👥حبيب بن أبي ثابت الأسدي، أبو يحيى
Newحبيب بن أبي ثابت الأسدي ← طاوس بن كيسان اليماني
ثقة فقيه جليل
👤←👥سفيان الثوري، أبو عبد الله
Newسفيان الثوري ← حبيب بن أبي ثابت الأسدي
ثقة حافظ فقيه إمام حجة وربما دلس
👤←👥إسماعيل بن علية الأسدي، أبو بشر
Newإسماعيل بن علية الأسدي ← سفيان الثوري
ثقة حجة حافظ
👤←👥يعقوب بن إبراهيم العبدي، أبو يوسف
Newيعقوب بن إبراهيم العبدي ← إسماعيل بن علية الأسدي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
1052
صلى رسول الله فقام قياما طويلا نحوا من قراءة سورة البقرة ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون
صحيح مسلم
2112
صلى في كسوف قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد
صحيح مسلم
2111
صلى رسول الله حين كسفت الشمس ثمان ركعات في أربع سجدات
صحيح مسلم
2094
صلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات
جامع الترمذي
560
صلى في كسوف فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثلاث مرات ثم سجد سجدتين والأخرى مثلها
سنن أبي داود
1183
صلى في كسوف الشمس فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد والأخرى مثلها
سنن النسائى الصغرى
1468
صلى عند كسوف الشمس ثماني ركعات وأربع سجدات
سنن النسائى الصغرى
1469
صلى في كسوف فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد والأخرى مثلها
سنن النسائى الصغرى
1470
صلى يوم كسفت الشمس أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
181
قياما طويلا، قال: نحوا من سورة البقرة، قال: ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا
بلوغ المرام
403
انخسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فصلى
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1468 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1468
1468۔ اردو حاشیہ: اس (مذکورہ) روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد طاؤس ہیں۔ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ یہی روایت حضرت عطاء بھی حضرت ابن عباس سے بیان کرتے ہیں۔ نچلی سند وہی ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1468]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 181
سورج گرہن والی نماز کا طریقہ
«. . . انه قال: خسفت الشمس فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس معه، فقام قياما طويلا . . .»
. . . (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو (بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 181]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1052، ومسلم 907، من حديث مالك به]
تفقہ:
① سورج گرہن والی نماز میں دو رکعتیں ہوتی ہیں اور ہر رکعت میں دو رکوع ہوتے ہیں۔
② کسی شخص کے پیدا ہونے، مرنے یا کسی خاص واقعے کی وجہ سے نہ سورج کو گرہن لگتا ہے اور نہ چاند کو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ما تحت ہوتا ہے۔
③ اللہ تعالیٰ نے جنت (پیدا فرما کر) اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھی ہے۔
④ چونکہ عام عورتوں میں جہالت، ناسمجھی، اپنے شوہروں کی نافرمانی اور شرک و بدعات زیادہ ہوتی ہیں اور دنیا میں اکثریت بھی عورتوں کی ہی ہے لہٰذا جہنم میں اکثریت عورتوں کی ہوگی سواۓ ان کے جنہیں الله تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھے۔
⑤ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: «لا ينظر الله إلى امرأة لا تشكر لزوجها و هي لا تستغني عنه» اللہ اس عورت کو (رحم کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جو اپنے شوہر کا شکریہ ادا نہیں کرتی اور (حال یہ ہے کہ) وہ اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ [التمهيد 327/3، 228 وسنده حسن]
[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 171]

الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1183
نماز کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور دوسری (رکعت) بھی اسی طرح پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1183]
1183. اردو حاشیہ:
یعنی ہر دو رکعت میں چار چار رکوع کیے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک ہر رکعت میں دو دو رکوع کرنے والی روایات ہی صحیح ہیں۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1183]

علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 403
نماز کسوف کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی اس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کے برابر قیام کیا۔ پھر رکوع بھی بڑا لمبا کیا۔ پھر کھڑے ہوئے تو قیام بھی طویل کیا، مگر پہلے قیام سے کم۔ پھر لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سجدہ ریز ہوئے۔ (اس کے بعد) پھر لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر اپنا سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور ایک لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کچھ کم تھا اس کے بعد پھر ایک اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم (لمبا) تھا، پھر اپنا سر مبارک (رکوع سے) اٹھایا۔ پھر سجدہ کیا پھر آخر کار سلام پھیر دیا تو (اس دوران) سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو وعظ بھی کیا۔ (بخاری و مسلم) اور الفاظ مسلم کے ہیں۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کے موقع پر آٹھ رکوع چار سجدوں کے درمیان ادا کیے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ اور مسلم ہی کی ایک روایت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے یوں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ رکوع چار سجدوں کے ساتھ ادا کیے ہیں۔ اور ابوداؤد میں سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تو پانچ رکوع اور دو سجدے پہلی رکعت میں کیے اور اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 403»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الكسوف، باب صلاة الكسوف جماعة، حديث:1052، ومسلم، الكسوف باب ما عرض علي النبي صلي الله عليه وسلم في صلاة الكسوف من أمرالجنة والنار، حديث:907، وحديث علي أخرجه أحمد:1 /143، وابن خزيمة، حديث:1388، 1394 وهو حديث حسن، وحديث جابرأخرجه مسلم، الكسوف، حديث:904، وحديث أبي بن كعب أخرجه أبوداود، صلاة الإستسقاء، حديث:1182 وسنده ضعيف.»
تشریح:
1. تعداد رکوع میں روایات مختلف ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
2.روایات میں دو دو رکوع‘ تین تین رکوع‘ چار چار رکوع یاپانچ پانچ رکوع ایک رکعت میں پڑھنے کا ذکر ہے۔
3. بعض نے ان کے درمیان جمع اور تطبیق دیتے ہوئے اس پر محمول کیا ہے کہ کسوف کی نماز آپ کی زندگی میں متعدد بار ہوئی ہے۔
اور بعض کا قول ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور کسوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے‘ لہٰذا ان روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا لازمی ہے تاکہ تعارض دور ہو‘ چنانچہ یقینی اور قطعی طور پر وہی احادیث راجح ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر آیا ہے۔
موقع کی مناسبت سے ہم اس جگہ چند امور کا بالاختصار اظہار ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صحیح صورت حال واضح ہو جائے اور اس مسئلے کی تنقیح و تحقیق ہو جائے۔
4. یہ بات ذہن نشین رہے کہ محقق مؤرخین‘ پیچیدہ و باریک مسائل کی تحقیق کرنے والے ہیئت دان اور ماہرین فلکیات کا اس پر اتفاق ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ جس روز فوت ہوئے وہ ۱۰ہجری ماہ شوال کی ۲۸ یا ۲۹ تاریخ تھی جبکہ انگریزی لحاظ سے ۶۳۲ء جنوری کی ۲۷ تاریخ بنتی ہے۔
اور بعض نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔
اور اس پر بھی سب متفق نظر آتے ہیں کہ سورج گرہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے بعد پھر کبھی نہیں ہوا‘ البتہ اس سے پہلے وقوع ہوا یا نہیں ‘ اس کے متعلق محقق کبیر علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب سیرت رحمۃ للعالمین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی و مدنی دور میں وقوع پذیر ہونے والے سورج گرہن کی تعداد ذکر کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد دس بار سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا۔
اس میں وہ سورج گرہن بھی شامل ہے جو آپ کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر لگا تھا۔
یہ گرہن ان سب کے آخر میں واقع ہوا۔
لیکن قاضی صاحب نے نہ تو ان کے اوقات کا ذکر فرمایا ہے اور نہ ان جگہوں اور علاقوں کو بیان کیا جہاں یہ واقعات ہوئے ہیں تاکہ مدینہ منورہ میں جو سورج گرہن ملاحظہ کیا گیا اس سورج گرہن سے ممیز ہو جاتا جو وہاں ملاحظہ نہیں کیا گیا۔
رہا احادیث کا معاملہ تو امام مسلم رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے‘ انھوں نے بتایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ منورہ میں اپنے تیروں سے تیز اندازی کر رہا تھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔
میں نے تیروں کو پھینک مارا اور دل میں کہا کہ سورج گرہن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معاملہ پیش آیا ہے‘ اللہ کی قسم! اسے میں ضرور دیکھوں گا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف: الصلاۃ جامعۃ‘ حدیث: ۹۱۳) 5. یہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مدینے میں پہلا موقع تھا کہ سورج کو گرہن لگا۔
کم از کم اس وقت تک گرہن کے بارے میں کوئی حکم ثابت نہیں۔
اور یہ تو معلوم ہے کہ عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ہیں۔
یہ بات اس کا تعین تو کر دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پہلی مرتبہ جو سورج گرہن مشاہدہ کیا گیا وہ فتح مکہ کے بعد کا ہے‘ پہلے کا نہیں۔
صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ گرہن کا واقعہ شدید گرمی کے دن ہوا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ماعرض علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم …‘ حدیث: ۹۰۴) اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ گرہن جو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا وہ جنوری کے مہینے میں لگا تھا۔
اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں سردی شدید ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں اور ایک واقعہ نہیں بلکہ متعدد ہیں۔
اس کے بعد جب ہم فلکیات کے حساب پر نظر ڈالتے ہیں جسے علامہ قاضی محمد سلیمان نے نمایاں کیا ہے تو فتح مکہ کے بعد ہمیں تین مرتبہ گرہن کا ثبوت ملتا ہے۔
پہلا گرہن ۲۸ ربیع الثانی ۹ ہجری بمطابق ۱۳ اگست ۶۳۰ء کو ہوا۔
اور اگست کا مہینہ جیسا کہ سب جانتے ہیں سخت گرمی کا مہینہ ہے۔
اور بارش کی کمی کی وجہ سے جزیرۃ العرب میں دوسرے ملکوں اور علاقوں کے مقابلے میں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
اور دوسرا گرہن ۲۹ شوال ۹ ہجری بمطابق ۷ فروری ۶۳۱ء میں واقع ہوا۔
اور تیسرا گرہن ۲۸ شوال ۱۰ ہجری بمطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو لگا۔
اور جب ہم فلکیات کے حساب اور احادیث میں مذکور کسوف کو باہم ملاتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعات میں سے دو گرہن ہوئے ہیں۔
ایک گرہن تو اگست کے مہینے میں واقع ہوا‘ یعنی پہلا گرہن شدید گرمی میں لگا۔
اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر جو جنوری کے مہینے میں ہوا وہ تیسرا سورج گرہن تھا۔
اور جو ۹ ہجری شوال کے مہینے میں (فروری میں) واقع ہوا وہ دوسرا گرہن تھا۔
مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مدینہ میں اس گرہن کا دیکھنا ممکن بھی تھا یا نہیں؟ بہرحال جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ متعدد مرتبہ گرہن کے ہونے کا مقتضی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دو دفعہ سورج گرہن واقع ہوا۔
لیکن یہ تعدد ‘روایات کے اختلاف اور رکوعات کی تعداد کی تحقیق اور تلاش میں سود مند نہیں ہے کیونکہ دونوں واقعات سے متعلقہ روایات ہر رکعت میں دو رکوعوں کی صراحت کرتی ہیں‘ پھر باقی کون سے سورج گرہن رہ جاتے ہیں جن کی نماز میں تین تین‘ چار چار اور پانچ پانچ رکوع کیے؟ 5. ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے روز گرہن کی نماز کے بارے میں بھی روایات میں صریح تعارض ہے۔
اکثر روایات میں ہے کہ اس روز نماز کسوف ہر رکعت میں دو رکوع سے پڑھی گئی ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت سے نماز میں ہر رکعت تین رکوعوں سے پڑھنا ثابت ہے‘ پس احادیث کا باہمی تعارض بجز ترجیح کے دور کرنا ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا ہمارے نزدیک‘ خواہ ہم متعدد واقعات تسلیم کریں یا نہ کریں‘ وہ روایات قوی ترین ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر ہے۔
سب سے زیادہ ان کا ثبوت ہے اور قطعی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی وجہ سے راجح بھی ہیں۔
امام شافعی ‘ امام بخاری ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اور متأخرین میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے کہ دو رکوع کی احادیث راجح ہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کسوف کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا مگر صاحب ہدایہ نے اس کا انکار کیا ہے کہ نماز کسوف میں خطبہ نہیں کیونکہ کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں صاف طور پر اس کا ذکر موجود ہے کہ آپ نے سامعین کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا۔
[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 403]

الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 560
گرہن کی نماز کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، تین بار قرأت کی اور تین بار رکوع کیا، پھر دو سجدے کئے، اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 560]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(تین طرق سے ابن عباس کی روایت میں ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کا تذکرہ ہے،
اس لیے علماء کے قول کے مطابق اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت نے ثقات کی مخالفت کی ہے،
اور یہ مدلس ہیں،
ان کی یہ روایت عنعنہ سے ہے اس لیے تین رکعت کا ذکر شاذ ہے /ملاحظہ ہو:
ضعیف ابی داؤد رقم: 215 وصحیح سنن ابی داؤد 1072)
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 560]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2111
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آفتاب کو گہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سجدوں کے ساتھ آٹھ رکوع کیے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2111]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مسند بزار میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل منقول ہے کہ انھوں نے ایک رکعت میں پانچ رکوع کیے اور سنن ابی داؤد میں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں پانچ رکوع کیے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2111]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1052
1052. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1052]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اس سے قبل بھی گزر چکی ہے، دوزخ اور جنت کی تصویریں آپ کو دکھلادیں، اس حدیث میں عورتوں کا بھی ذکر ہے جس میں ان کے کفر سے ناشکری مراد ہے۔
بعضوں نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔
بہر حال یہ عالم بزرخ کی چیز ہے جس طرح حدیث میں آگیا۔
ہمارا ایمان ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
جنت کے خوشے کے لیے آپ نے جو فرمایا وہ اس لیے کہ جنت اور نعمائے جنت کے لیے فنا نہیں ہے اس لیے وہ خوشہ اگر آجاتا تو وہ یہاں دنیا کے قائم رہنے تک رہتا مگر یہ عالم دنیا اس کا محل نہیں اس لیے اس کاآپ کو معائنہ کرایا گیا۔
اس روایت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے جس کے پیش نظر برادران احناف نے بھی بہر حال اپنے مسلک کے خلاف اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔
چنا نچہ صاحب تفہیم البخاری کے الفاظ ملاحظہ ہوں آپ فرماتے ہیں:
اس باب کی تمام احادیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ راویوں نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے۔
چنا نچہ قیام پھر رکوع پھر قیام پھر رکوع کی کیفیت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، لیکن سجدہ کا ذکر جب آیا تو صرف اسی پر اکتفا کیا کہ آپ نے سجدہ کیا تھا، اس کی کوئی تفصیل نہیں کہ سجدے کتنے تھے کیونکہ راویوں کے پیش نظر اس نماز کے امتیازات کو بیان کرنا ہے اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ رکوع ہر رکعت میں آپ نے دو کئے تھے اور جن میں ایک رکوع کا ذکر ہے ان میں اختصار سے کام لیا گیاہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1052]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1052
1052. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1052]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگر مقرر امام موجود نہ ہو تو کوئی بھی صاحب علم یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے، البتہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ اگر امام راتب نہ ہو تو لوگوں کو انفرادی طور پر نماز پڑھنی چاہیے لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 697/2) (2)
بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کھلی آنکھ سے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ کے لیے جنت کے تمام حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام مسافت کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ خوشۂ انگور توڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔
اس کی تائید حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جنت میرے قریب آ گئی۔
اگر میں جرءت کرتا تو تمہارے لیے خوشۂ انگور لے آتا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 745)
ممکن ہے کہ آپ کے سامنے جنت کو مثالی طور پر پیش کیا گیا ہو۔
جیسا کہ آئینے میں کسی چیز کی تصویر نظر آتی ہے۔
اس کی تائید حدیث انس سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابھی ابھی میرے سامنے دیوار قبلہ میں جنت اور دوزخ کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 749)
اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرایا گیا تھا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تھے تو اس وقت بھی آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن اسے مشاہدۂ جمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جبکہ نماز کسوف کے موقع پر مشاہدۂ جلال کے طور پر آپ نے انہیں دیکھا تھا۔
واللہ أعلم۔
(3)
حدیث جابر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بری خصلتوں کو بیان فرمایا ہے جو اکثر عورتوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔
آپ نے فرمایا:
میں نے ایسی عورتوں کو بکثرت جہنم میں دیکھا جو راز افشا کر کے امانت میں خیانت کرتی ہیں، اگر ان سے کوئی چیز مانگی جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں، اگر خود سوال کرنا ہو تو چمٹ جاتی ہیں اور اگر انہیں دیا جائے تو ناشکری پر اتر آتی ہیں۔
یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے باعث اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن بنیں گی۔
(فتح الباري: 700/2)
أعاذنا اللہ منه۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1052]