English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ترمذی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (3956)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
17. باب ما جاء في تعجيل الصلاة إذا أخرها الإمام
باب: جب امام نماز دیر سے پڑھے تو اسے جلد پڑھ لینے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 176
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ، فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ صُلِّيَتْ لِوَقْتِهَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً وَإِلَّا كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِهَا إِذَا أَخَّرَهَا الْإِمَامُ، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الْإِمَامِ، وَالصَّلَاةُ الْأُولَى هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے ۱؎، تو تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲؎ نماز اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی نماز تمہارے لیے نفل ہو گی، ورنہ تم نے اپنی نماز محفوظ کر ہی لی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۳- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی نماز اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی نماز ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہو گی ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 176]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، سنن ابی داود/ الصلاة 10 (431)، سنن النسائی/الإمامة 2 (779)، و55 (860)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 150 (1256)، (تحفة الأشراف: 11950)، مسند احمد (5/168، 169)، سنن الدارمی/الصلاة 26 (1264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے دیر کر کے پڑھیں گے۔
۲؎: یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
۳؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب نماز کو اس کے اول وقت سے دیر کر کے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اول وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداؤد کی روایت میں «صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة» تم نماز وقت پر پڑھ لو پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی، ظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی، بعضوں نے اسے ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1256)

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو ذر الغفاري، أبو ذرصحابي
👤←👥عبد الله بن الصامت الغفاري، أبو النضر
Newعبد الله بن الصامت الغفاري ← أبو ذر الغفاري
ثقة
👤←👥عبد الملك بن حبيب الأسدي، أبو عمران
Newعبد الملك بن حبيب الأسدي ← عبد الله بن الصامت الغفاري
ثقة
👤←👥جعفر بن سليمان الضبعي، أبو سليمان
Newجعفر بن سليمان الضبعي ← عبد الملك بن حبيب الأسدي
صدوق يتشيع
👤←👥محمد بن موسى الحرشي، أبو عبد الله
Newمحمد بن موسى الحرشي ← جعفر بن سليمان الضبعي
مقبول
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
سنن النسائى الصغرى
779
صل الصلاة لوقتها فإن أدركت معهم فصل ولا تقل إني صليت فلا أصلي
سنن النسائى الصغرى
860
صل الصلاة لوقتها ثم اذهب لحاجتك فإن أقيمت الصلاة وأنت في المسجد فصل
صحيح مسلم
1466
صل الصلاة لوقتها فإن صليت لوقتها كانت لك نافلة وإلا كنت قد أحرزت صلاتك
صحيح مسلم
1468
صل الصلاة لوقتها ثم اذهب لحاجتك فإن أقيمت الصلاة وأنت في المسجد فصل
صحيح مسلم
1469
صل الصلاة لوقتها فإن أدركتك الصلاة معهم فصل ولا تقل إني قد صليت فلا أصلي
صحيح مسلم
1465
صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصل فإنها لك نافلة
صحيح مسلم
1467
أصلي الصلاة لوقتها فإن أدركت القوم وقد صلوا كنت قد أحرزت صلاتك وإلا كانت لك نافلة
جامع الترمذي
176
صل الصلاة لوقتها فإن صليت لوقتها كانت لك نافلة وإلا كنت قد أحرزت صلاتك
سنن أبي داود
431
صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة
سنن ابن ماجه
1256
صل الصلاة لوقتها فإن أدركت الإمام يصلي بهم فصل معهم وقد أحرزت صلاتك وإلا فهي نافلة لك
المعجم الصغير للطبراني
261
صل الصلاة لوقتها واجعل صلاتك معهم نافلة
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 176 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 176
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اسے دیر کر کے پڑھیں گے۔

2؎:
یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے،
اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

3؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب نماز کو اس کے اوّل وقت سے دیر کر کے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اوّل وقت میں اکیلے پڑھ لے،
ابو داود کی روایت میں ((صَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتَهَا مَعَهُمْ فَصَلِّهَا فَإِنَّهَا لَكَ نَافِلَةٌ)) تم نماز وقت پر پڑھ لو پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو دوبارہ پڑھ لیا کرو،
یہ تمہارے لیے نفل ہوگی ظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی،
بعضوں نے اسے ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے،
وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 176]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 431
جب امام نماز کو دیر سے پڑھے تو کیا کرنا چاہئے؟
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے؟ یا فرمایا: نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ۱؎، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 431]
431۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام فتنہ کی خبر دی ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں حکام وقت پر ثابت ہو چکی ہے اور اب حکام اور عوام سب ہی اس میں مبتلا ہیں۔ «إلا من رحم ربي»
➋ نماز کو بے وقت کر کے پڑھنا اس کی روح نکال دینے کے مترادف ہے، گویا اسے مار ڈالا گیا ہو اور ایسی نماز اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔
➌ ایسی صورت میں جب حاکم یا اہل مسجد افضل اور مختار وقت کے علاوہ میں نماز ادا کرتے ہوں تو متبع سنت کو صحیح اور مختار وقت میں اکیلے ہی نماز پڑھنی چاہیے۔
➍ اگر انسان مسجد میں یا ان کی مجلس میں موجود ہو تو ان کے ساتھ مل کر بھی پڑھ لے تاکہ فتنہ نہ ہو اور وحدت قائم رہے۔
➎ غیر معصیت کے امور میں حکام وقت کی اطاعت واجب ہے۔
➏ مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ کوئی شرعی سبب موجو د ہو تو عصر اور فجر کے بعد بھی نماز جائز ہے۔
➐ اس کی پہلی نماز فرض ہو گی اور دوسری نفل، خواہ باجماعت ہی کیوں نہ پڑھی ہو۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 431]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 779
ظالم حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا بیان۔
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ ابن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا: نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 779]
779 ۔ اردو حاشیہ:
➊ راویٔ حدیث «براء» ہیں (تیر ٹھیک کرنے والے) نہ کہ حضرت براء بن عازب صحابی رضی اللہ عنہ۔
➋ ہونٹ کاٹنا افسوس کی بنا پر تھا کہ امراء نماز وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں اور ران پر ہاتھ مارنا متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ امراء کے اس فعل کی بنا پر ان سے بغاوت جائز نہ ہو گی۔
➌ وہ (امراء) نماز کو اول اور معتاد وقت سے مؤخر کرتے تھے، تبھی وقت پر پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وقت مختار سے مؤخر کرتے ہوں۔ وقت مختار سے تاخیر کبھی کبھار تو جائز ہے مگر ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا درست نہیں۔
➍ وقت پر نماز پڑھنا تو نماز کی حفاظت کے لیے ہے جب کہ بعد میں امراء کے ساتھ نماز پڑھنا فتنے سے بچنے کے لیے ہے کہ بغاوت کے جراثیم پرورش نہ پائیں۔ اگر امام مقرر کرنے کا اختار ہو تو صالح اور عالم شخص ہی کو مقرر کرنا چاہیے لیکن اگر یہ اختیار نہ ہو یا امام بالجبر مسلط ہو جائے اور اس کی مخالفت ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر اس سے فتنے کا خدشہ ہو تو حدیث میں بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔ مستقل طور پر گھر میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ جماعت سے محرومی بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتی ہے، لہٰذا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا اور تھوڑا نقصان قبول کر لیا جائے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 779]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 860
نماز کا وقت نکل جانے کے بعد جماعت کے ساتھ نماز دہرانے کا بیان۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پہ ہاتھ مار کر مجھ سے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے تو کیسے کرو گے؟ انہوں نے کہا: آپ جیسا حکم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اول وقت پر پڑھ لینا، پھر تم اپنی ضرورت کے لیے چلے جانا، اور اگر جماعت کھڑی ہو چکی ہو اور تم (ابھی) مسجد ہی میں ہو تو پھر نماز پڑھ لینا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 860]
860 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس سے جماعت اور لزوم جماعت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، خواہ لوگ افضل اور مستحب وقت کے بعد بھی جماعت کروائیں، تب بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ ہاں! اپنی نماز وقت پر محفوظ کر لے۔ گویا کسی حال میں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں کیونکہ جماعت سے علیحدہ ہونے اور تفرد وشذوذ کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے صحابہ نے اپنے اجتہاد پر جماعت کے عمل کو ترجیح دی ہے کیونکہ ایک میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جتنے اہل علم ہوں گے، اتنا ہی غلطی کا احتمال کم ہو جائے گا حتیٰ کہ جب اجماع (تمام معتبر اہل علم کا اتفاق جس کے خلاف کچھ منقول نہ ہو) ہو جاتا ہے تو غلطی کا احتمال بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے۔
➋ ران پر ہاتھ مارنا تنبیہ کے لیے ہے کہ یہ بات تجھ سے متعلق ہے، اچھی طرح سمجھ لے۔ آپ نے اس قسم کے بہت سے مسائل میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات دیں۔ واقعتاً انہیں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا اور انہوں نے باوجود اختلاف کے جماعت کو نہیں چھوڑا۔ اگرچہ مفسدین اور امت مسلمہ کے بدخواہ انہیں اشتعال دلانے کی کوششیں کرتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بنا پر وہ محفوظ رہے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 860]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1465
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیا کروگے جب تمہارے حکمران ایسے لوگ ہونگے جو نماز کو اس کے وقت (مختار) سے تاخیر کر کے پڑھیں گے یا نماز کو اس کے وقت سے نکال کر مار ڈالیں گے؟ تو میں نے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اپنے وقت پر پڑھ اور اگر دوبارہ ان کے ساتھ نماز پاؤ تو پڑھ، وہ تیرے لیے نفل ہو جائے گی۔ خلف نے عَنْ وَقْتِهَا کا لفظ بیان نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1465]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نماز اپنے وقت مختار میں سکون و اطمینان کے ساتھ خشوع وخضوع کو قائم رکھ پڑھنا نماز کو زندہ رکھنا ہے یعنی نماز کی روح اور مقصد کو ملحوظ رکھنا ہے اور نماز کو بلا وعذر مجبوری وقت کے ختم ہونے کے بعد یا وقت آخر میں پڑھنا یا اس میں بے پروائی اور نیم دلی کا مظاہرہ کرنا،
جلدی جلدی بلا سکون واعتدال ٹھونگیں لگانا نماز کی روح اور اس کے مقصد کو ضائع کر کے اس کو مار ڈالنا۔
(2)
اگر کسی امام کا یہ وطیرہ اور عادت ہو کہ وہ نماز ہمیشہ وقت مختار کے بعد یا وقت کے آخر میں یا وقت نکلنے کے بعد نماز پڑھاتا ہے تو نماز انفرادی طور پر یا جماعتی جیسے ممکن ہو پڑھ لینی چاہیے اگر فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو دوبارہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے یہ دوسری نماز نفل ہو گی اور عام طور پر امراء یہ تأخیر ظہر اور عصر کی نماز میں روا رکھتے تھے اس لیے یہ کہنا کہ عصر کی نماز دوبارہ نہیں پڑھی جا سکتی کیونکہ عصر کے بعد نفل نہیں ہیں،
درست نہیں ہے کیونکہ یہ نفل اپنی خوشی سے نہیں پڑھے جا رہے ایک مجبوری اور ضرورت کے تحت پڑھے جا رہے ہیں بلا سبب عصر کے بعد نفل پڑھنا جائز نہیں۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بعد والی نماز نفل ہو گی اور پہلے پڑھی ہوئی نماز فرض ہو گی۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1465]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1467
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل نے مجھے سننے اور ماننے کی تلقین کی، اگرچہ حکمران کٹے ہوئے اعضاء والا ہو اور یہ کہ میں نماز وقت پر پڑھوں: پھر اگر لوگوں کو پاؤں انہوں نے نماز (وقت کے بعد پڑھی ہے) تو تم اپنی نماز کو بچا لیا، وگرنہ (اگر انہوں نے وقت کے اندر پڑھ لی ہے) تو تیری یہ نماز نفلی ہو جائے گی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1467]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حکمران کیسا بھی ہو اس کی جائز بات سننی اور ماننی چاہیے اپنے ارادہ اور اختیار سے کسی اعضا بریدہ یا غلام کو حکمران نہیں بنایا جا سکتا لیکن اگر وہ زبردستی اقتدار حاصل کر لے یا خلیفہ ایسا حکمران مقرر کر دے تو اس کے جائز احکام مانیں جائیں گے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1467]