(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، عن داود بن ابي هند، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " قالت قريش ليهود: اعطونا شيئا نسال هذا الرجل، فقال: سلوه عن الروح، قال: فسالوه عن الروح، فانزل الله تعالى: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85، قالوا: اوتينا علما كثيرا، اوتينا التوراة ومن اوتي التوراة فقد اوتي خيرا كثيرا، فانزلت: قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر سورة الكهف آية 109 إلى آخر الآية "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، قَالُوا: أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا، أُوتِينَا التَّوْرَاةُ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، فَأُنْزِلَتْ: قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ سورة الكهف آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھیں، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے؟) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“(بنی اسرائیل: ۸۵)، انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت «قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر»”کہہ دیجئیے: اگر میرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات و مقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائے (مگر میرے رب کی حمد و ثناء ختم نہ ہو)“(الکہف: ۱۰۹)، نازل ہوئی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
سلوه عن الروح قال فسألوه عن الروح فأنزل الله ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا قالوا أوتينا علما كثيرا أوتينا التوراة ومن أوتي التوراة فقد أوتي خيرا كثيرا فأنزلت قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3140
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھیں، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے؟) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“(بنی اسرائیل: ۸۵)، انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3140]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑاعلم دیا گیا ہے (بنی اسرائیل: 85) 2؎: کہہ دیجیے: اگرمیرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات ومقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائے (مگرمیرے رب کی حمدوثناء ختم نہ ہو)(الکهف: 109)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3140