1148 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" احتج آدم وموسي، فقال موسي لآدم: يا آدم انت ابونا، خيبتنا واخرجتنا من الجنة، فقال له آدم: انت موسي اصطفاك الله بكلامه، وخط لك في الالواح بيده، اتلومني علي امر قد قضاه الله علي قبل ان يخلقني باربعين عاما؟" فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «فحج آدم موسي» 1148 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَي، فَقَالَ مُوسَي لِآدَمَ: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ فِي الْأَلْوَاحِ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَي أَمْرٍ قَدْ قَضَاهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ عَامًا؟" فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَحَجَّ آدَمُ مُوسَي»
1148- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام آپ ہمارے جدامجد ہیں۔ آپ نے ہمیں رسوا کردیا اور ہمیں جنت سے نکلوادیا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے کہا: آپ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے اپنے دست قدرت کے ذریعے لوح میں (تورات) تحریر کی۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے معاملے کے بارے میں ملامت کررہے ہیں؟ جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس سال پہلے کرلیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، تو سیدنا آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ سے جیت گئے۔ سیدنا آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے جیت گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3409، 4736، 4738، 6614، 7515، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6179، 6180، 6210، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10918، 10919، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4701، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2134، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7504، 7703، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1528، 6245، 6642»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1148
1148- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام آپ ہمارے جدامجد ہیں۔ آپ نے ہمیں رسوا کردیا اور ہمیں جنت سے نکلوادیا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے کہا: آپ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے اپنے دست قدرت کے ذریعے لوح میں (تورات) تحریر کی۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے معاملے کے بارے میں ملامت کررہے ہیں؟ جس کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1148]
فائدہ: اس حدیث میں سیدنا و ابونا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسٰی علیہ السلام کے مباحثے کا ذکر ہے، یہ مباحثہ کہاں ہوا، اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، چونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، ہمیں کوئی اعتراض کرنے کی جرٱت نہیں ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہر بات ہر وقت ہر کسی کو سمجھ آئے۔ افسوس کہ بعض عقل کے اندھوں نے بے شمار صحیح احادیث پر اپنی ناقص عقل کی وجہ سے ترکش چلائے، بس ہماری عقل قرآن وحدیث کے ماتحت ہو نی چا ہیے، اور قرآن و حدیث کے مطابق ہونی چاہیے، دین اسلام کسی کی عقل کا محتاج نہیں ہے، ہاں ہماری عقل دین کی محتاج ہے، وہ مقتل شیطانی ہے جو احادیث کا انکار کرے اور فتنہ انکار حدیث کو فروغ دے، وہ ظالم عقل ہے جو احادیث صحیحہ سے مذاق کرے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ تقدیر برحق ہے، اور تقدیر کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انسانوں نے کرنا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے غیب سے بہت زیادہ باخبر ہے، اور وہی لکھا گیا ہے، اس کا نام تقدیر ہے۔ یہاں پر ہمارے بعض لوگوں نے تقدیر کی یہ تعریف کر رکھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لکھا، وہی ہم نے کرنا ہے، یہ تعریف درست نہیں ہے، جو پہلی تعریف ہم نے کی، وہی درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 1147