(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابي العباس , قال: سمعت عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" الم اخبر انك تقوم الليل وتصوم النهار , قلت: إني افعل ذلك، قال: فإنك إذا فعلت ذلك هجمت عينك ونفهت نفسك، وإن لنفسك حق ولاهلك حق، فصم وافطر وقم ونم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ , قُلْتُ: إِنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ، قَالَ: فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ عَيْنُكَ وَنَفِهَتْ نَفْسُكَ، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ حَقٌّ وَلِأَهْلِكَ حَقٌّ، فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب بن فروخ نے کہا میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری آنکھیں (بیداری کی وجہ سے) بیٹھ جائیں گی اور تیری جان ناتواں ہو جائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔
Narrated 'Abdullah bin 'Amr: Once Allah's Messenger (saws) said to me, "I have been informed that you offer Salat (prayer) all the night and observe Saum (fast) during the day." I said, "(Yes) I do so." He said, "If you do so, your eye sight will become weak and you will become weak. No doubt, your body has right on you, and your family has right on you, so observe Saum (for some days) and do not observe it (for some days), offer Salat (for sometime) and then sleep."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 252
قم ونم صم وأفطر لجسدك عليك حقا لعينك عليك حقا لزورك عليك حقا لزوجك عليك حقا من حسبك أن تصوم من كل شهر ثلاثة أيام فإن بكل حسنة عشر أمثالها فذلك الدهر كله صم من كل جمعة ثلاثة أيام صم صوم نبي الله داود صوم نبي الله داود نصف
لعينك حظا لنفسك حظا لأهلك حظا صم وأفطر صل ونم صم من كل عشرة أيام يوما ولك أجر تسعة صم صيام داود يصوم يوما ويفطر يوما لا يفر إذا لاقى لا صام من صام الأبد
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 567
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے` سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا۔“(بخاری و مسلم) اور مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ ہیں کہ ”نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔“[بلوغ المرام/حدیث: 567]
567 لغوی تشریح: «لَاصَامَ مَنْ صَامَ الَّابَدَ» اس سے ہمیشہ اور سال بھر روزہ رکھنا مراد ہے۔ اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے جس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ «لَاصَامَ وَلَا اَفْطَرَ» یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا نہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ روزہ نہ ہونے کا مفہوم تو یہی ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ ”اور نہ افطار کیا“ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا اور روزے میں جن چیزوں سے رکا جاتا ہے، اس نے ان چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو روزے دار سمجھتا رہا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور باقی سارا سال روزے رکھ کر صرف عیدین اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھنے سے یہ کراہت رفع نہیں ہو جاتی۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 567
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1153
1153. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہاں، میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تو ایسا کرتا رہا تو تمہاری بینائی کمزور ہو جائے گی اور تیرا جی تھک جائے گا۔ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نیز نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1153]
حدیث حاشیہ: گویا آنحضرت ﷺ نے ایسے سخت مجاہدہ سے منع کیا۔ اب جو لوگ ایسا کریں وہ آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف چلتے ہیں، اس سے نتیجہ کیا؟ عبادت تو اسی لیے ہے کہ اللہ اور رسول راضی ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1153
1153. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہاں، میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تو ایسا کرتا رہا تو تمہاری بینائی کمزور ہو جائے گی اور تیرا جی تھک جائے گا۔ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نیز نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1153]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: میں نے اللہ کی قسم کھا کر یہ وعدہ کیا تھا کہ زندگی بھر دن کا روزہ رکھوں گا اور رات کا قیام کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”یہ تیرے بس کا کام نہیں۔ “ اور مذکورہ ارشادات فرمائے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3418) ایک روایت میں ہے کہ میرے والد عمرو بن عاص ؓ نے میرا نکاح ایک اعلیٰ نسب والی عورت سے کر دیا۔ وہ ایک دن اپنی بہو سے ملنے آئے اور میرے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ اچھے آدمی ہیں، لیکن ہمارے حقوق کی خبر گیری نہیں کرتے۔ انہوں نے رسول الله ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ مجھ سے ملاقات کرے۔ “ ملاقات کے وقت آپ نے مجھے مذکورہ ہدایات دیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5052) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ ہر ماہ کے تین روزے کافی ہیں۔ اللہ کے ہاں ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہو گا، اس طرح تجھے زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ “ لیکن میں نے خود پر تشدد کیا، کاش کہ میں اس رخصت کو قبول کر لیتا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1975)(2) اس سے معلوم ہوا کہ مستحبات پر واجبات کی ادائیگی کو مقدم کرنا چاہیے اور دیگر حقوق کی ادائیگی اس قدر نہ کی جائے کہ عبادت کا حق پامال ہونے لگے، اس لیے مذکورہ حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے عبادت میں مصروف ہونا ایک مسلمان کی شان ہے۔ (فتح الباري: 61/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1153