الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
44. بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:
44. باب: اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ علم رکھتا ہے؟ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کے حوالے کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سب سے بڑا عالم ہے۔
(44) Chapter. When a religious learned man is asked, “Who is the most learned person,” it is better for him to attribute or entrust absolute knowledge to Allah and to say, “Allah is the Most Learned (than anybody else).”
حدیث نمبر: 122
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم ان موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسى آخر، فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا اعلم، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم فانطلق، وانطلق بفتاه يوشع بن نون وحملا حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل، فاتخذ سبله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما، فلما اصبح، قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي امر به، فقال له فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب او قال تسجى بثوبه فسلم موسى، فقال الخضر: وانى بارضك السلام، فقال: انا لموسى، فقال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تستطيع معي صبرا يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه انت، وانت على علم علمكه لا اعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملوهما، فعرف الخضر فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر نقرة او نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى، ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، فكانت الاولى من موسى نسيانا، فانطلقا فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه من اعلاه فاقتلع راسه بيده، فقال موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا، قال ابن عيينة: وهذا اوكد فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض فاقامه، قال الخضر: بيده فاقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: يرحم الله موسى لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من امرهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى، فَقَالَ الْخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَنَا لمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا؟ قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ الْخَضِرُ: يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، قَالَ الْخَضِرُ: بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی) (یہ سن کر) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہو گیا) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔


Hum se Abdullah bin Muhammed Al-Musnadi ne bayan kiya, un se Sufyan ne, un se ’Amr ne, unhein Sa’eed bin Jubair Radhiallahu Anhu ne khabar di, woh kehte hain ke main ne Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma se kaha ke Nauf Bikali ka yeh khayaal hai ke Musa Alaihissalam (jo Khazir Alaihissalam ke paas gaye the woh) Musa Bani Israel waale nahi the balke doosre Musa the, (yeh sun kar) Ibn-e-Abbas Radhiallahu Anhuma bole ke Allah ke dushman ne jhoot kaha hai. Hum se Ubai bin Ka’b Radhiallahu Anhu ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se naql kiya ke (ek roz) Musa Alaihissalam ne khade ho kar Bani Israel mein khutbah diya, to aap se poocha gaya ke logon main sab se ziyada saheb ilm kaun hai? Unhon ne farmaaya ke main hun. Is wajah se Allah ka ghussa un par hawa ke unhon ne ilm ko Allah ke hawaale kiun na kar diya. Tab Allah ne un ki taraf Wahi bheji ke mere bandon main se ek bandah daryaaon ke sangam par hai. (Jahaan Faris aur Room ke samandar mlite hain) woh tujh se ziyada aalim hai, Musa Alaihissalam ne kaha aye Parwardigaar! Meri un se mulaqaat kaise ho? Hukm huwa ke ek machli zambeel mein rakh lo, phir jahaan tum us machli ko gum kar doge to woh bandah tumhein (wahien) milega. Tab Musa Alaihissalam chale aur saath apne khaadim Yusha’ bin Noon ko le liya aur unhon ne zambeel mein machli rakh li, jab (ek) paththar ke paas pahunche, dono apne sar us par rakh kar sau gaye aur machli zambeel se nikal kar darya mein apni raah banaati chali gayi aur yeh baat Musa Alaihissalam aur un ke saathi ke liye behad ta’jjub ki thi, phir dono baaqi raat aur din mein (jitna waqt baaqi tha) chalte rahe, jab subah hue Musa Alaihissalam ne khaadim se kaha, hamaara naashta laao, is safar mein hum ne (kaafi) takleef uthaayi hai aur Musa Alaihissalam bilkul nahi thake the, magar jab us jagah se aage nikal gaye, jahaan tak unhein jaane ka hukm mila tha, tab un ke khaadim ne kaha, kya aap ne dekha tha ke jab hum sakhrah ke paas thehre the to main machli ka zikr bhool gaya, (baqaul-e-ba’z sakhrah ke neeche aab-e-hayat tha, woh us machli par pada, aur woh zindah ho kar ba-qudrat-e-ilaahi darya mein chal di) (yeh sun kar) Musa Alaihissalam bole ke yahi woh jagah hai jis ki hamein talaash thi, to woh pichle paaon waapas ho gaye, jab paththar tak pahunche to dekha ke ek shakhs kapda oodhe huwe (maujood hai) Musa Alaihissalam ne unhein salaam kiya, Khazir Alaihissalam ne kaha ke tumhaari sarzameen mein salaam kahaan? Phir Musa Alaihissalam ne kaha ke main Musa (Alaihissalam) hun, Khazir bole ke Bani Israel ke Musa? Unhon ne jawaab diya ke haan! Phir kaha kya main aap ke saath chal sakta hun, taake aap mujhe hidaayat ki woh baatein batlaayien jo Allah ne khaas aap hi ko sikhlaayi hain. Khazir Alaihissalam bole ke tum mere saath sabr nahi kar sakoge. Aye Musa! Mujhe Allah ne aisa ilm diya hai jise tum nahi jaante aur tum ko jo ilm diya hai use main nahi jaanta. (Is par) Musa ne kaha ke Allah ne chaaha to aap mujhe sabir paaoge aur main kisi baat mein aap ki na-farmaani nahi karunga. Phir dono darya ke kinaare kinaare paidal chale, un ke paas koi kashti na thi ke ek kashti un ke saamne se guzri, to kashti waalon se unhon ne kaha ke hamein bitha lo. Khazir Alaihissalam ko unhon ne pehchaan liya aur baghair kiraye ke sawaar kar liya, itne mein ek chidya aayi aur kashti ke kinaare par baith gayi, phir samandar mein us ne ek ya do chonchein maarein (use dekh kar) Khazir Alaihissalam bole ke aye Musa! Mere aur tumhaare ilm ne Allah ke ilm mein se itna hi kam kiya hoga jitna is chidya ne samandar (ke paani) se phir Khazir Alaihissalam ne kashti ke takhton mein se ek takhta nikaal daala, Musa Alaihissalam ne kaha ke in logon ne to hamein kiraya liye baghair (muft main) sawaar kiya aur aap ne in ki kashti (ki lakdi) ukhaad daali taake yeh doob jaayen, Khazir Alaihissalam bole ke kya main ne nahi kaha tha ke tum mere saath sabr nahi kar sakoge? (Is par) Musa Alaihissalam ne jawaab diya ke bhool par meri girift na karo. Musa Alaihissalam ne bhool kar yeh pehla aitraaz kiya tha. Phir dono chale (kashti se utar kar) ek ladka bachchon ke saath khel raha tha, Khazir Alaihissalam ne upar se us ka sar pakad kar haath se use alag kar diya. Musa Alaihissalam bol pade ke aap ne ek begunaah bachche ko baghair kisi jaani haq ke maar daala (ghazab ho gaya) Khazir Alaihissalam bole ke main ne tum se nahi kaha tha ke tum mere saath sabr nahi kar sakoge. Ibn-e-’Uyainah kehte hain ke is kalaam mein pehle se ziyada takeed hai (kiunki pehle kalaam main lafz «لَكَ» nahi kaha tha, is mein «لَكَ» zaaid kiya, jis se takeed zahir hai) phir dono chalte rahe. Hatta ke ek gaaon waalon ke paas aaye, un se khaana lena chaaha. Unhon ne khaana khilaane se inkaar kar diya. Unhon ne wahien dekha ke ek deewaar usi gaaon mein girne ke qareeb thi. Khazir Alaihissalam ne apne haath ke ishaare se use seedha kar diya. Musa bol uthe ke agar aap chaahte to (gaaon waalon se) is kaam ki mazdoori le sakte the. Khazir ne kaha ke (bas ab) hum aur tum mein judaayi ka waqt aa gaya hai. Janab mehboob kibriya Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam farmaate hain ke Allah Musa par rahem kare, hamaari tamanna thi ke Musa kuch der aur sabr karte to mazeed waaqiaat un dono ke bayan kiye jaate (aur hamaare saamne roshni main aate, magar Musa Alaihissalam ki ujlat ne us ilm-e-ladunni ke silsile ko jald hi munqate’ kara diya) Muhammed bin Yousuf kehte hain ke hum se ’Ali bin khashram ne yeh Hadees bayan ki, un se Sufyan bin ’Uyainah ne poori ki poori bayan ki.

Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (the companion of Khadir) was not the Moses of Bani Israel but he was another Moses." Ibn `Abbas remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka`b: The Prophet said, "Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their footsteps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses said, "I am Moses." He asked, "The Moses of Bani Israel?" Moses replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses said, "Allah willing, you will find me patient and I will disobey no order of yours. So both of them set out walking along the seashore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al- Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Khadir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet added, "May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 123


   صحيح البخاري3400أبي بن كعببينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك قال لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر فقال لموسى فتاه أرأيت إذ أوينا إلى الصخ
   صحيح البخاري7478أبي بن كعببينا موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك فقال موسى لا فأوحي إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان موسى يتبع أثر الحوت في البحر فقال فتى موسى لموس
   صحيح البخاري3401أبي بن كعبموسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فقال له بلى لي عبد بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري4726أبي بن كعبموسى رسول الله قال ذكر الناس يوما حتى إذا فاضت العيون ورقت القلوب ولى فأدركه رجل فقال أي رسول الله هل في الأرض أحد أعلم منك قال لا فعتب عليه إذ لم يرد العلم إلى الله قيل بلى قال أي رب فأين قال بمجمع البحرين قال أي رب اجعل لي علما أعلم ذلك به ف
   صحيح البخاري4727أبي بن كعبموسى خطيبا في بني إسرائيل فقيل له أي الناس أعلم قال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه وأوحى إليه بلى عبد من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري3278أبي بن كعبلفتاه آتنا غداءنا قال أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره ولم يجد موسى النصب حتى جاوز المكان الذي أمر الله به
   صحيح البخاري4725أبي بن كعبموسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه إن لي عبدا بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري122أبي بن كعبموسى النبي خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا أعلم فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح مسلم6163أبي بن كعبموسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا أعلم قال فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح مسلم6168أبي بن كعببينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال له هل تعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بل عبدنا الخضر قال فسأل موسى السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا افتقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فسار موسى ما شاء الله أن يسير ثم قال
   صحيح مسلم6165أبي بن كعببينما موسى في قومه يذكرهم بأيام الله وأيام الله نعماؤه وبلاؤه إذ قال ما أعلم في الأرض رجلا خيرا وأعلم مني قال فأوحى الله إليه إني أعلم بالخير منه أو عند من هو إن في الأرض رجلا هو أعلم منك قال يا رب فدلني عليه قال فقيل له تزود حوتا مالحا فإنه ح
   جامع الترمذي3149أبي بن كعبيرحم الله موسى لوددنا أنه كان صبر حتى يقص علينا من أخبارهما قال وقال رسول الله الأولى كانت من موسى نسيان قال وجاء عصفور حتى وقع على حرف السفينة ثم نقر في البحر فقال له الخضر ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور م
   سنن أبي داود3984أبي بن كعبرحمة الله علينا وعلى موسى لو صبر لرأى من صاحبه العجب ولكنه قال إن سألتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 113   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ`
«. . . سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ . . .»
. . . سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:: 122]

تشریح:
نوف بکالی تابعین سے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انہوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

سیدنا خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں ہو سکتے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ السلام کو سلام کیا، تو انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ خضر علیہ السلام کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہو گا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو، پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کر دیا۔ موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہو سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 122   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3149  
´سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا (الکہف: 79) (موجودہ مصاحف میں) صالحۃ کا لفظ نہیں ہے۔

2؎:
اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے،
چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اورکفر میں ڈھانپ دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3149   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:122  
122. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ، موسیٰ بنی اسرائیل نہیں تھے بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ تھے۔ انہوں نے فرمایا: غلط کہتا ہے اللہ کا دشمن۔ فرمایا: حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نبی موسیٰ ﷺ ایک دن بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے نہ کیا۔ پھر اللہ نے ان پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر، ایسا ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اے پروردگار! میری ان سے کیونکر ملاقات ہو گی؟ حکم ہوا: ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، وہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ پھر موسیٰ ؑ روانہ ہوئے اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:122]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بڑائی، تفاخر اورخود پسندی کے اسباب علماء کو زیادہ میسر آتے ہیں، اس لیے یہ حضرات اپنی وجاہت اور شہرت کو بچانے کے لیے ہر بات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں، مبادا ان کے متعلق کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے کہ اسے اس سوال کا جواب نہیں آیا، یہ کیساعالم ہے؟ علماء کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔
جب ایک جلیل القدر پیغمبر کو معتوب ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واللہ أعلم نہیں کہا توعام علماء کس طرح نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟علماء کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا جہل پیش نظررکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85: 17)
اور تمھیں علم بہت ہی کم دیاگیا ہے۔
نیز فرمایا:
﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ (یوسف: 12: 76)
ہرجاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس وضاحت کے پیش نظر علمائے کرام کی معلومات بہرحال محدود اور ان کی مجہولات غیر محدود ہیں۔
اپنی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے مجہولات کو نظر انداز کردینا دانشمندی نہیں۔
جب کسی عالم دین کے سامنے اپنی مجہولات ہوں گی تو دماغ میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں سب سے بڑا ہوں۔
اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس اعتبار سے صحیح تھا کہ آپ صاحب کتاب، جلیل القدر پیغمبر تھے، انھیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اس بنا پر جوعلوم و معارف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو سکتے تھے، وہ کسی دوسرے کے پاس کیسے ہوسکتے تھے؟ لیکن اللہ کی جناب میں ان کا یہ جواب ان کی شایان شان نہ تھا۔
انھیں اپنے علم کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس تناظر میں علماء حضرات کی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ (اَعلَمُ النَّاسِ)
کون ہے؟ تو اپنے آپ كو پيش نظر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس طرح بھی نہ کہے کہ لوگوں کی نظر تو مجھ پر ہی پڑتی ہے۔
اگرسوال نہ بھی کیا جائے تب بھی خود کو اونچا نہ خیال کیاجائے۔
علماء کو چاہیے کہ وہ ہرحالت میں تواضع کو پیش نظر رکھیں اور اپنے نقص اوراللہ کے کمال کے معترف رہیں۔

موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں دوچیزوں کے متعلق اختلاف ہوا:
(الف)
۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن سے ملاقات کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے گھر سے رخت سفر باندھا وہ حضرت خضر ہیں یا کوئی اور صاحب؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےتھے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں جبکہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف کچھ اورتھا۔
اس اختلاف کا فیصلہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موافقت میں دیا۔
(ب)
۔
دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانے والے حضرت موسیٰ بن عمران پیغمبر ہیں یا موسیٰ بن میثا؟ حضرت ابو یزید نوف بن فضالہ بکالی جو دمشق کے بہت بڑے عالم دین اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کاموقف تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر نہیں بلکہ میثا کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔
واضح رہے کہ انھیں یہ معلومات جناب کعب احبار سے ملی تھیں کیونکہ نوف بکالی کعب احبار کی بیوی کے بیٹے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مؤقف کی بڑی سختی سے تردید فرمائی۔
فرمایا کہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حقیقتاً اسے اللہ کا دشمن سمجھتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ حضر ت نوف بکالی بہت بڑے واعظ تھے اور واعظین حضرات کا وقار عوام الناس میں بہت ہوتا ہے۔
اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پرزور انداز میں تردید نہ فرماتے تو اندیشہ تھا کہ عقیدت مند حضرات اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
(عمدۃ القاری 272/2)
حضرت خضر اس اعتبار سے زیادہ عالم تھے کہ انھیں تکویینات سے کچھ معلومات دی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ تھیں۔
ان کے پاس علم تشریعی تھا جس کا کچھ حصہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ضرور تھا کیونکہ حضرت خضر، خواہ نبی ہوں یا ولی، کسی نہ کسی شریعت کے ضرور پابند تھے۔
اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریعی علوم کے مقابلے میں ان کے تکوینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کا اعتراف حضرت خضر علیہ السلام نے بایں الفاظ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کا علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں اور تمھیں ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں۔
دراصل حضرت خضر علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے علوم آپ کے پاس نہیں، اور آپ کے علوم میرے پاس نہیں۔
اس لیے (اَعلَم)
میں ہوں نہ کہ آپ، بلکہ (اَعلَم)
وه ذات اقدس ہے جس نے ہم دونوں کو علم سے بہرہ ورکیا ہے۔

اس واقعے کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھوں نے صبر نہ کیا بلکہ جلدی سے کام لیا، اگرحضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہتے تو ان کے مزید حالات سے ہمیں آگاہی ہوتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ تکوینی علوم آپ کے پاس بھی نہ تھے، وہ صرف حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں، کیونکہ تکوینی علوم خالق کائنات کے لیے باعث کمال ہیں، کسی مخلوق کے لیے نہیں۔
اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکوینی علوم سے ناواقف ہونا کمی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔

حضرت خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہ تھے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔
انھیں چاہیے تھا کہ اس بات کو اللہ کے حوالے کر دیتے، چنانچہ ان کا مقابلہ ایسے انسان سے کرایا گیا جو ان سے درجے میں کہیں کم تھا تاکہ اس قسم کا دعویٰ نہ کریں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ایک عالم دین کو خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا انکار کرنا ضروری ہے۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی تقاضا ہے۔
خلاف شریعت کام دیکھ کر علم کے باوجود انھیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا اور حق بات نہ کہنا، ضعف ایمان کی علامت ہے جو ایک عالم کی شان کے خلاف ہے۔
ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی انھوں نے یہ فریضہ ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو روا نہ رکھا۔
رضي الله عنهم أجمعين۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 122   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.