الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
13. باب النَّهْيِ عَنِ الْبُصَاقِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
13. باب: مسجد میں تھوکنے کی ممانعت نماز میں ہو یا نماز کے سوا۔
حدیث نمبر: 1230
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان احدكم في الصلاة، فإنه يناجي ربه، فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن شماله، تحت قدمه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، فَلَا يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ شِمَالِهِ، تَحْتَ قَدَمِهِ ".
) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے، اس لیے وہ نہ اپنے سامنے تھوکے نہ ہی دائیں طرف، البتہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے (تھوک لے۔)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے راز و نیاز کی گفتگو کرتا ہے، اس لیے وہ اپنے سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے، ہاں بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک لے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 551

   صحيح البخاري417أنس بن مالكإذا قام في صلاته فإنما يناجي ربه أو ربه بينه وبين قبلته لا يبزقن في قبلته ولكن عن يساره أو تحت قدمه ثم أخذ طرف ردائه فبزق فيه ورد بعضه على بعض قال أو يفعل هكذا
   صحيح البخاري531أنس بن مالكأحدكم إذا صلى يناجي ربه لا يتفلن عن يمينه لكن تحت قدمه اليسرى
   صحيح البخاري405أنس بن مالكأحدكم إذا قام في صلاته فإنه يناجي ربه أو إن ربه بينه وبين القبلة لا يبزقن أحدكم قبل قبلته لكن عن يساره أو تحت قدميه ثم أخذ طرف ردائه فبصق فيه ثم رد بعضه على بعض فقال أو يفعل هكذا
   صحيح البخاري412أنس بن مالكلا يتفلن أحدكم بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن يساره أو تحت رجله
   صحيح البخاري413أنس بن مالكإذا كان في الصلاة فإنما يناجي ربه لا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن يساره أو تحت قدمه
   صحيح البخاري1214أنس بن مالكإذا كان في الصلاة فإنه يناجي ربه لا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن شماله تحت قدمه اليسرى
   صحيح مسلم1230أنس بن مالكإذا كان أحدكم في الصلاة فإنه يناجي ربه لا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن شماله تحت قدمه
   سنن النسائى الصغرى309أنس بن مالكأخذ طرف ردائه فبصق فيه فرد بعضه على بعض
   سنن النسائى الصغرى729أنس بن مالكنخامة في قبلة المسجد فغضب حتى احمر وجهه فقامت امرأة من الأنصار فحكتها وجعلت مكانها خلوقا فقال رسول الله ما أحسن هذا
   سنن ابن ماجه762أنس بن مالكرأى نخامة في قبلة المسجد فغضب حتى احمر وجهه جاءته امرأة من الأنصار فحكتها وجعلت مكانها خلوقا فقال رسول الله ما أحسن هذا
   بلوغ المرام191أنس بن مالك‏‏‏‏إذا كان احدكم في الصلاة فإنه يناجي ربه فلا يبصقن بين يديه ولا عن يمينه،‏‏‏‏ ولكن عن شماله تحت قدمه
   مسندالحميدي1253أنس بن مالكأيحب أحدكم أن يبصق في وجهه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 191  
´نماز کے دوران میں تھوک یا بلغم آ جائے تو سامنے اور دائیں جانب تھوکنے سے اجتناب کرنا چاہیے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا كان احدكم في الصلاة فإنه يناجي ربه فلا يبصقن بين يديه ولا عن يمينه،‏‏‏‏ ولكن عن شماله تحت قدمه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے باتیں کر رہا ہوتا ہے (لہذا ایسی حالت میں) اپنے سامنے کی طرف اور دائیں جانب نہ تھوکے بلکہ اپنی بائیں جانب پاؤں کے نیچے (تھوکے) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 191]

لغوی تشریح:
«يُنَاجِي» مناجاۃ سے ماخوذ ہے۔ خفیہ طور پر گفتگو اور بات چیت کرنے کو کہتے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔
«فَلَا يَبْصُقَنَّ» لہٰذا نہ تھوکے۔ یہ ممانعت تھوک اور منہ کے دیگر فضلوں کو شامل ہے۔
«وَلَا عَنْ يَّمِينِهِ» دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا سبب دائیں جانب کی تعظیم و تکریم ہے اور بعض کے نزدیک اس کی وجہ فرشتے کا دائیں جانب ہونا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے دوران میں تھوک یا بلغم آ جائے تو سامنے اور دائیں جانب تھوکنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
➋ اگر نمازی مسجد میں ہو اور یہ ضرورت پیش آ جائے تو کسی رومال یا کپڑے وغیرہ پر لے کر اسے مل دینا چاہیے۔ اگر کوئی چیز اس وقت دستیاب نہ ہو تو پھر تھوک وغیرہ اپنی بائیں جانب پاؤں کے نیچے پھینک دے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب مسجد میں قالین وغیرہ نہ ہو۔
➌ یہ حکم گویا اس وقت کے لیے ہے جب فرش کچا ہو۔ آج کل عام طور پر صورت حال اس سے مختلف ہے۔ بہرحال نماز میں قبلہ رو تھوکنا نہیں چاہیے بلکہ عام حالت میں بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم نماز سے باہر بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ ادب و احترام اور پاکیزگی کا یہی تقاضہ ہے۔
➍ سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امام کو نماز کے دوران قبلہ رخ تھوکنے کی وجہ سے منصب امامت سے معزول فرما دیا تھا۔ [سنن ابي داؤد، الصلاة، باب فى كراهية البزاق فى المسجد، حديث:481]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 191   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 309  
´کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا، اس میں تھوکا، اور اسے مل دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 309]
309۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ تھوک پاک ہے۔ ایک شاذ قول ہے کہ تھوک منہ سے نکلنے کے بعد پلید ہو جاتا ہے مگر یہ بلادلیل ہے۔
➋ کپڑے میں تھوک کر کپڑے کو آپس میں مل لینا مجلس میں تھوکنے کا مہذب طریقہ ہے۔ گندگی نہیں پھیلتی اور آدمی گنوار نہیں لگتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 309   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 729  
´مساجد کو خوشبو میں بسانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کر دیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کیا ہی اچھا کیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 729]
729 ۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اسے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے کیونکہ دیگر صحیح روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ دیگر روایات میں مذکور مضمون کی اس روایت سے تردید یا مخالفت بھی نہیں ہوتی، لہٰذا مذکورہ روایت قابل عمل ہے۔ مزید دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني: 120/7، حدیث: 3050، و سنن ابن ماجه بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 762]
➋ مسجد میں گند لگا ہو تو اسے کھرچ کر یا صاف کر کے خوشبو لگا دینا اچھا عمل ہے۔ خلوق ایک رنگ دار خوشبو ہے جسے عورتیں استعمال کرتی ہیں کیونکہ مرد کے لیے رنگ دار خوشبو کا استعمال منع ہے، البتہ مسجد کو یہ خوشبو لگانا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 729   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث762  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، اتنے میں قبیلہ انصار کی ایک عورت آئی اور اس نے اسے کھرچ دیا، اور اس کی جگہ خوشبو لگا دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کتنا اچھا کام ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 762]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
غلط کام دیکھ کر ناراضی کا اظہار کرنا جائز ہے۔

(2)
بعض اوقات چہرے کے تاثرات ہی تنبیہ کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

(3)
اچھا کام کرنے والے کی تعریف کرنا جائز ہے تاکہ دوسروں کی توجہ اس اچھائی کی طرف ہو اور وہ بھی اس طرح اچھے کام کرنے کی کوشش کریں اور اس شخص کی حوصلہ افزائی ہو۔

(4)
انعام اور سزا تربیت کا ایک اصول ہے اگرچہ وہ صرف چند الفاظ کی صورت میں ہو یا موقع کی مناسبت سے کسی اور انداز میں۔

(5)
سردار، افسر، استاد یا بزرگ کا اپنے ماتحت زیردست شاگرد یا ملازم کے اچھے کام کی تعریف کرنا اس خوشامد میں شامل نہیں جو ایک بری عادت ہے نہ منہ پر تعریف کرنے کی اس صورت میں شامل ہے جو شرعاً ممنوع ہے۔

(6)
بعض محققین نے اس حدیث کو حسن یا صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: (الصحيحة رقم: 3050)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 762   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1230  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز درحقیقت ایک طرح سے اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور راز و نیاز کی بات ہے اس لیے انسان کو نماز پورے حضور دل اور خشوع وخضوع کےساتھ پوری توجہ اور اہتمام سے قراءت اور تسبیحات وتمجیدات اور دوسرے اذکار پڑھنے چاہئیں اور نماز میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے انسان کی توجہ اور حضور دل ودماغ میں خلل پڑے اور نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1230   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.