الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
147. . بَابُ : النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ
147. باب: فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1249
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يحيى بن يعلى التيمي ، عن عبد الملك بن عمير ، عن قزعة ، عن ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى التَّيْمِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ قَزَعَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اور نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 31 (586)، الصوم 67 (1995)، (تحفة الأشراف: 4279)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین51 (827)، سنن النسائی/المواقیت 34 (568)، مسند احمد (3/7، 39، 46، 52، 53، 60، 67، 71) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Sa’eed Al-Khudri that the Prophet (ﷺ) said: “There is no prayer after the ‘Asr until the sun has set, and there is no prayer after the Fajr until the sun has risen.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري586سعد بن مالكلا صلاة بعد الصبح حتى ترتفع الشمس لا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس
   صحيح مسلم1923سعد بن مالكلا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس ولا صلاة بعد صلاة الفجر حتى تطلع الشمس
   سنن النسائى الصغرى568سعد بن مالكلا صلاة بعد الفجر حتى تبزغ الشمس لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن النسائى الصغرى567سعد بن مالكنهى رسول الله عن الصلاة بعد الصبح حتى الطلوع عن الصلاة بعد العصر حتى الغروب
   سنن ابن ماجه1249سعد بن مالكلا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس لا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس
   بلوغ المرام136سعد بن مالك‏‏‏‏لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 136  
´ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے`
«. . . عقبة بن عامر: ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينهانا ان نصلي فيهن وان نقبر فيهن موتانا . . .»
. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے اور میت کی تدفین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرمایا کرتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 136]

لغوی تشریح:
«لَا صَلَاةَ» یعنی نفلی نماز نہیں۔
«بَعْدَ الصُّبْحِ» یعنی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد۔ لیکن اس سے صبح کی سنتوں کے علاوہ نماز مراد ہے کیونکہ ان کی قضا نماز فجر کے بعد جائز ہے۔ علاوہ ازیں طلوع فجر کے بعد سببی نماز کے بعد مطلقاً نوافل کی ادائیگی مکروہ ہے۔
«نَقْبُرَ» با پر ضمہ اور کسرہ دونوں درست ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ ہم تدفین عمل میں لائیں۔
«مَوْتَانَا» «مَوْتَيٰ» میت کی جمع ہے۔ اپنے مرنے والوں کو۔۔۔
«بَازِغَةٌ» چمکتے ہوئے، روشن۔
«اَلظَّهِيرَةِ» نصف النہار، یعنی آدھے دن کا وقت۔
«قَائِمُ الظَّهِيْرَةِ» سے مراد دوپہر کا سایہ ہے اور «قَائِمُ الظَّهِيرة» کھڑے ہونے اور قائم ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چند ساعت کے لیے سیدھا قائم ہوتا ہے۔ اس وقت ہر چیز کا سایہ بالکل اس چیز کے اوپر ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر، مشرق اور مغرب کی جانب جھکا ہوا نہیں ہوتا۔
«تَزُولُ» آسمان کے وسط (درمیان) سے دوسری جانب مائل ہونا۔
«تَتَضَيَّفُ» بھی مائل ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
«وَالْحُكْمُ الثَّانِي»، یعنی عین نصف النہار میں نماز پڑھنے کی نہی، کیونکہ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ حکم دوسرے نمبر پر آیا ہے۔
«وَكَذَا لِأَبِي دَاوُدَ» ابوداود میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح ہے کہ بروز جمعہ نصف النہار کے وقت نماز کی اجازت ہے۔
«نَحْوُهُ» جس طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ لیکن سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہما سے مروی روایات ضعیف ہیں، اس لیے ان سے جمعے کے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ جمعے کے دن بھی زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی ممنوع ہی ہے۔ امام شافعی وغیرہ کی رائے، جس کی بنیاد ضعیف احادیث ہیں، مرجوح ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کا ذکر ہے۔
➋ ممنوع کام یہ ہیں کہ ہم ان اوقات میں نہ نماز ادا کریں نہ میت دفن کریں۔
➌ یہاں تدفین سے مراد نماز جنازہ بھی ہے کہ اس ممنوع وقت میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ میت کو دفن کیا جائے، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے۔ پہلا وقت طلوع آفتاب کا ہے کہ جب وہ طلوع ہو رہا ہو تو نماز اور جنازہ ممنوع ہیں حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور دوسرا وقت دوپہر کا ہے، جب سورج عین وسط آسمان پر قائم ہو، مغرب کی جانب زوال پذیر نہ ہوا ہو تو ایسے وقت میں بھی (نفلی) نماز یا نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ اور تیسرا وقت غروب آفتاب کا ہے، اس میں بھی نماز جنازہ یا میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔
➍ حدیث میں طلوع آفتاب کے بعد «تَرْتَفِعَ» کا ذکر ہے کہ وہ بلند ہو جائے، اس بلندی سے کیا مراد ہے؟ ابوداود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں اس اونچائی کا اندازہ ایک نیزہ یا دو نیزے کی مقدار مذکور ہے۔ جب سورج مشرق کے افق پر ایک نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا ہو جائے تو پھر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ) عین پر ضمہ اور قاف ساکن ہے۔ ان کی کنیت ابوحماد یا ابوعامر ہے۔ ہجرت، صحبت اور اسلام میں سبقت حاصل کرنے والے قدیم صحابہ میں سے تھے۔ کتاب اللہ کے قاری اور علم میراث اور فقہ کے مشہور عالم تھے۔ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ معرکہ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کی طرف سے تین سال مصر کے والی رہے، نیز غزوۃ البحر کے امیر رہے۔ مصر میں 58 ہجری میں وفات پائی اور مقطم میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 136   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 567  
´عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک، اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 567]
567 ۔ اردو حاشیہ: عصر اور صبح کے بعد مطلقاً نفل نماز سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اگر ان اوقات میں نفل نماز کی اجازت ہوتی تو لازماً طلوع اور غروب کے وقت بھی نماز پڑھی جانی تھی، اس لیے کہ طلوع اور غروب کی حتمی رؤیت تو مسجد کے اندر سے (یا گھروں میں بھی) ممکن نہیں ہے۔ غالباً اسی امکان کو ختم کرنے کے لیے مطلقاً روک دیا گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 567   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.