الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
27. باب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ:
27. باب: تکبیر تحریمہ اور قرأت کے بیچ کی دعاؤں کا بیان۔
Chapter: What is to be said between the opening takbir and the recitation of the Qur’an
حدیث نمبر: 1354
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة بن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا كبر في الصلاة، سكت هنية، قبل ان يقرا، فقلت: يا رسول الله، بابي انت وامي، ارايت سكوتك بين التكبير والقراءة، ما تقول؟ قال: اقول: اللهم باعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الابيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلَاةِ، سَكَتَ هُنَيَّةً، قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، مَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ، كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ ".
جریر نےعمارہ بن قعقاع سے، انھوں نے ابوزرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (آغاز) نماز کے لیے تکبیر کہتے تو قراءات کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے، میں نےعرض کی: اے اللہ کے رسو ل! میرے ماں باپ آپ پر قربان! دیکھیے یہ جو تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ کی خاموشی ہے (اس کے دوران میں) آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں کہتا ہوں: اللہم باعدبینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب اللہم نقنی من خطایای کما ینقی الثوب الابیض من الدنس، اللم اغسلنی من خطایای بالثلج والماء والبرد اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے پاک کر دے برف کے ساتھ، پانی کےساتھ اور اولوں کے ساتھ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر کہتے تو قرأت سے پہلے کچھ سکوت فرماتے تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان، فرمایئے آپ تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی کے دوران کیا پڑھتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس قدر فاصلہ کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان رکھا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے یوں پاک صاف کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 598

   صحيح البخاري744عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد
   صحيح مسلم1354عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد
   سنن أبي داود781عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب
   سنن النسائى الصغرى896عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد
   سنن النسائى الصغرى60عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد
   سنن النسائى الصغرى335عبد الرحمن بن صخراللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد
   سنن ابن ماجه805عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كالثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد
   بلوغ المرام213عبد الرحمن بن صخراللهم باعد بيني وبين خطاياي ...

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 213  
´تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے`
«. . . رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا كبر للصلاة سكت هنيهة قبل ان يقرا فسالته فقال:‏‏‏‏اقول: اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الابيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد .»
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا سا وقفہ فرماتے پھر قرآت شروع کرتے (ایک روز) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وقفہ کے دوران آپ کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا! «اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ اور دوری فرما دے کہ جتنا مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح صاف فرما دے کہ جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 213]

لغوی تشریح:
«هُنَيْهَةَ» ہا پر ضمہ، نون پر فتحہ، یا ساکن اور دوسری ہا پر فتحہ ہے۔ تھوڑا سا وقفہ۔
«نَقِّنِي» نون پر فتحہ، قاف پر تشدید اور کسرہ ہے۔ «تنقية» سے امر کا صیغہ ہے۔ پاک صاف کر دے۔
«يُنَقّٰي» صیغہ مجہول۔
«الدَّنَسِ» دال اور نون پر فتحہ ہے، میل کچیل۔
«الثَّلْجِ» ثا پر فتحہ اور لام ساکن ہے، وہ بخارات جو فضا میں سردی کے درجہ انجماد تک پہنچنے کی وجہ سے منجمد ہو جاتے ہیں اور دھنی ہوئی کی طرح ہو کر زمین پر گرتے ہیں (جسے برف کہتے ہیں۔)
«وَالْبَرَدِ» با اور را دونوں پر فتحہ ہے۔ بادلوں کا پانی جو سرد ہوا میں جم کر اولوں کی صورت میں زمین پر گرتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد قرأت سے پہلے قدرے وقفہ ہے اور اس میں یہ دعا پڑھنا مسنون ہے۔
➋ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دعائے افتتاح بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ پڑھنی چاہئے۔
➌ گناہوں میں سخت تمازت و حرارت ہوتی ہے جسے مومن دنیا ہی میں جبکہ فاسق آخرت میں محسوس کرے گا اور اس کی تمازت و حرارت کو ختم کرنے کے لیے ٹھنڈا پانی اور برف زیادہ کار آمد ہے، اس لیے دعا میں ان چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ «والله أعلم بالصواب»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 213   
  مولانا حافظ عبدالمتين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل : تحت الحديث صحيح بخاري 744  
´تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے`
«. . . رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ الْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً، قَالَ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: هُنَيَّةً، فَقُلْتُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ، قَالَ: أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرآت کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں «اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم اغسل خطاياى بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 744]

فوائد و مسائل:
«اللهم باعد بيني» الخ پڑھنا زیادہ صحیح، حنفی مذہب کے فقہاء نے بھی اس کی تائید کی ہے،
چنانچہ شرح وقایہ اردو [ص 94] میں حنفی مذہب کے زبردست مجتہد، محقق اور موید علامہ کمال ابن الہمام رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بجائے «سبحانك اللهم» کے «اللهم باعد بيني» الخ پڑھنا زیادہ تر صحیح ہے۔ [فتح القدير 289/1]
   حدیث نماز، حدیث\صفحہ نمبر: 133   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 60  
´برف سے وضو کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان اپنے خاموش رہنے کے دوران کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں «اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياى كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياى بالثلج والماء والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح دوری پیدا کر دے جیسے کہ تو نے پورب اور پچھم کے درمیان دوری رکھی ہے، اے اللہ! مجھے میری خطاؤں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے برف، پانی اور اولے کے ذریعہ دھو ڈال ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 60]
60۔ اردو حاشیہ:
➊ حدیث کی باب سے مطابقت واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برف کو پانی کے برابر ذکر فرمایا ہے، لہٰذا اس سے وضو ہو سکتا ہے۔
➋ اس دعا میں پانی، برف اور اولوں کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ میرے گناہوں کو ہر ممکن طریقے سے مجھ سے دور فرما دے۔ ان سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی مختلف صورتوں کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 60   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 335  
´برف اور اولوں کے پانی سے وضو کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: «‏اللہم اغسلني من خطاياى بالثلج والماء والبرد» اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے برف، پانی اور اولوں کے ذریعہ دھو دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 335]
335۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 60 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 335   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 896  
´تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان کی دعا کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر چپ رہتے، تو میں نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان اپنی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں: «اللہم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللہم نقني من خطاياى كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللہم اغسلني من خطاياى بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! تو میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر رکھی ہے، اے اللہ! تو مجھے میرے گناہوں سے پاک صاف کر دے جس طرح میل کچیل سے سفید کپڑا صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! تو میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 896]
896 ۔ اردو حاشیہ:
➊ دعائے استفتاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ امام مالک دعائے استفتاح کے قائل نہیں مگر اتنی روایات صحیحہ کی موجودگی میں یہ موقف حیران کن ہے۔
➋ پانی، برف اور اولوں سے مراد مختلف قسم کی رحمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں، مثلاً: عفوودرگزر، مغفرت اور رحمت۔ پانی کے ساتھ برف اور اولوں کا ذکر تاکید کے لیے کیا گیا ہے، یعنی اے اللہ! ان گناہوں کی حدت و تمازت کو، جو جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب ہیں، پانی، برف اور اولوں سے ختم کر دے۔
میرے اور میری غلطیوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرق اور مغرب کا آپس میں ملنا محال ہے، اسی طرح مجھ سے گناہوں کو اور گناہوں کو مجھ سے دور رکھ۔
➍ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے اس دعائے استفتاح میں تین زمانوں کی طرف اشارہ ہو، یعنی میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری سے مراد مستقبل کے گناہ یوں، تنقیہ (گناہوں کی صفائی) سے مراد زمانۂ حال کی لغزشیں ہوں اور گناہ دھونے سے مراد زمانہ ماضی میں کیے ہوئے گناہ ہوں۔ واللہ أعلم۔ [فتح الباري: 2؍298، تحت حدیث: 744]
➎ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برف اور اولوں سے طہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔
➏ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات، آپ کی حرکات و سکنات دریافت کرتے رہتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اپنا مکمل دین محفوظ شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 896   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 781  
´نماز شروع کرنے کے وقت (تکبیر تحریمہ کے بعد) سکتہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے تو تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان (تھوڑی دیر) خاموش رہتے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان آپ جو سکتہ کرتے ہیں، مجھے بتائیے آپ اس میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم أنقني من خطاياى كالثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني بالثلج والماء والبرد» اے اللہ! جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے اسی طرح میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرما دے، اے اللہ! تو مجھے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف کر دے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک کیا جاتا ہے، اے اللہ! تو میرے گناہوں کو برف پانی اور اولوں سے دھو دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 781]
781۔ اردو حاشیہ:
➊ ثنا کی دعاؤں میں سے یہ دعا سب سے صحیح اسانید سے ثابت ہے، الفاظ میں قدرے فرق بھی مروی ہے۔
➋ ثنا کو خاموشی سے پڑھنا مسنون ہے۔
➌ آخری جملہ اے اللہ! مجھے برف، پانی اور اولوں سے دھو دے۔ اس میں برف اور اولوں کا ذکر یا تو تاکید کے لئے ہے یا اس معنی میں ہے کہ یہ پانی زمینی آلودگیوں سے پاک اور صاف ہوتا ہے، تو اس سے صفائی بھی عمدہ ہو گی اور صفائی کے لئے برف اور اولوں کے ذکر میں حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ الفاظ بطور تفاول ہیں۔ یعنی اے اللہ! گناہوں کے باعث جو آگ کی حرارت کا سزاوار بن رہا ہوں، ان سے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کو ٹھنڈی برف اور اولوں سے دھو اور آگ کی جلن سے بالکل مامون و محفوظ فرما دے۔ «والله اعلم»
➍ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احوال کا تتبع فرمایا کرتے تھے، خواہ وہ ظاہر ہوتے یا مخفی اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے دین کو محفوظ کر دیا ہے۔ «رضي الله عنهم وارضاهم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 781   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث805  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو تکبیر اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر خاموش رہتے، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتائیے آپ تکبیر و قرات کے درمیان جو خاموش رہتے ہیں تو اس میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ دعا پڑھتا ہوں: «اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كالثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسی دوری کر دے جیسی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان رکھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 805]
اردو حاشہ:
(1)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو علم کا اس قدر شوق تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیتے تھے۔
اور یہ انتظا ر نہیں کرتے تھے۔
کہ خود آپﷺ بیان فرمایئں۔
البتہ بعض اوقات اس خیال سے توقف کرتے تھے۔
کہ یہ سوال رسول اللہﷺ کو ناگوار محسوس نہ ہو۔
اور بلا ضرورت سوال کرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔

(2)
گناہوں سے فاصلہ کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور توفیق کے ساتھ گناہوں سے محفوظ رکھے۔
اور ہم گناہوں کا ارتکاب تو درکنار ان کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

(3)
گناہوں کو میل کچیل سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
اس لئے انتہائی صفائی کو سفید کپڑے کی صفائی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کیونکہ سفید کپڑے کو زیادہ توجہ اور اہتمام سے صاف کیا جاتا ہے۔
کہ اگر معمولی سا بھی داغ یا دھبہ رہ گیا تو بہت بُرا محسوس ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف فرما دے۔

(4)
گناہ جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔
ان سے روح بے چینی محسوس کرتی ہے۔
جس طرح جسم ظاہری گرمی سے بے چینی محسوس کرتا ہے۔
اس لئے گناہوں سے صفائی کےلئے زیادہ ٹھنڈی اشیاء کا ذکر کیا گیا ہے۔
کہ دل کو ٹھنڈ اور تسکین حاصل ہوجائے۔

(5)
نبی کریمﷺ معصوم تھے۔
لیکن اظہار عبودیت کےلئے اور امت کو تعلیم دینے کےلئے استغفار فرماتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 805   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1354  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ عام گناہوں اور کوتاہیوں سے محفوظ تھے۔
لیکن قریباں رابیش بود حیرانی کے فطری اصول کے مطابق،
آپﷺ ان لغزشوں اور کوتاہیوں سے سخت لرزاں اور ترساں رہتے تھے جو بشری تقاضوں کے تحت بھول چوک کے سبب آپﷺ سے سرزد ہو سکتی تھیں اور معصیت ونافرمانی نہ ہونے کے باوجود آپﷺ کی بلند و بالا شان اور مقام تقریب کےلحاظ سے قابل گرفت ہو سکتی تھیں۔
مشہور مقولہ ہے۔
(حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئٰاتُ الْمُقَرَّبِيْن)
جن کے رتبے ہیں سواء ان کو سوا مشکل ہے اور آپﷺ کی دعا سے معلوم ہوتا ہے انسان کسی قدر بھی بلند و بالا مقام پر فائز ہو جائے وہ بشریت کے تقاضوں سے نہیں نکل سکتا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق و راہنمائی کے بغیر خطاؤں اور لغزشوں سے دور نہیں رہ سکتا اور گناہ مادی میل کچیل کی طرح دل اور روح کی میل کچیل ہیں اور اللہ کے غضب کی آگ اور اس کی سوزش وجلن کا سبب ہیں،
اس لیے اس حدت وسوزش کو اللہ کی بخشش ورحمت کے پانی،
برف اور اولوں سے ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1354   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.