الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
85. بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى الْمَيِّتِ:
85. باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف ہو تو بہتر ہے۔
(85) Chapter. The praising of a deceased by the people.
حدیث نمبر: 1368
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عفان بن مسلم هو الصفار، حدثنا داود بن ابي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن ابي الاسود , قال: قدمت المدينة وقد وقع بها مرض، فجلست إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فمرت بهم جنازة فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر رضي الله عنه: وجبت، ثم مر باخرى فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر رضي الله عنه: وجبت، ثم مر بالثالثة فاثني على صاحبها شرا، فقال: وجبت، فقال ابو الاسود: فقلت: وما وجبت يا امير المؤمنين، قال: قلت كما , قال النبي صلى الله عليه وسلم: ايما مسلم شهد له اربعة بخير ادخله الله الجنة، فقلنا: وثلاثة، قال: وثلاثة، فقلنا: واثنان، قال: واثنان، ثم لم نساله عن الواحد".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ , قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ: فَقُلْتُ: وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: قُلْتُ كَمَا , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، فَقُلْنَا: وَثَلَاثَةٌ، قَالَ: وَثَلَاثَةٌ، فَقُلْنَا: وَاثْنَانِ، قَالَ: وَاثْنَانِ، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ".
ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے ‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے ‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا ‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے ‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی، پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟

Narrated Abu Al-Aswad: I came to Medina when an epidemic had broken out. While I was sitting with `Umar bin Al-Khattab a funeral procession passed by and the people praised the deceased. `Umar said, "It has been affirmed to him." And another funeral procession passed by and the people praised the deceased. `Umar said, "It has been affirmed to him." A third (funeral procession) passed by and the people spoke badly of the deceased. He said, "It has been affirmed to him." I (Abu Al-Aswad) asked, "O chief of the believers! What has been affirmed?" He replied, "I said the same as the Prophet had said, that is: if four persons testify the piety of a Muslim, Allah will grant him Paradise." We asked, "If three persons testify his piety?" He (the Prophet) replied, "Even three." Then we asked, "If two?" He replied, "Even two." We did not ask him regarding one witness.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 449


   صحيح البخاري2643عمر بن الخطابأيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة قلنا وثلاثة قال وثلاثة قلت واثنان قال واثنان ثم لم نسأله عن الواحد
   صحيح البخاري1368عمر بن الخطابأيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة فقلنا وثلاثة قال وثلاثة فقلنا واثنان قال واثنان ثم لم نسأله عن الواحد
   سنن النسائى الصغرى1936عمر بن الخطابأيما مسلم شهد له أربعة قالوا خيرا أدخله الله الجنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1368  
1368. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:تین بھی۔ پھر ہم نے عرض کیا:دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:دو آدمی بھی۔ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1368]
حدیث حاشیہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
فِي رِوَايَةِ الِنَضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ عِنْدَ الْحَاكِمِ كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُرَّ بِجِنَازَةٍ فَقَالَ مَا هَذِهِ الْجِنَازَةُ قَالُوا جِنَازَةُ فُلَانٍ الْفُلَانِيِّ كَانَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَيَسْعَى فِيهَا وَقَالَ ضِدَّ ذَلِكَ فِي الَّتِي أَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَفِيهِ تَفْسِيرُ مَا أُبْهِمَ مِنَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ فِي رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَلِلْحَاكِمِ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنِعْمَ الْمَرْءُ لَقَدْ كَانَ عَفِيفًا مُسْلِمًا وَفِيهِ أَيْضًا فَقَالَ بَعْضُهُمْ بِئْسَ الْمَرْءُ كَانَ إِنْ كَانَ لَفَظًّا غَلِيظًا۔
(فتح الباري)
یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔
آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔
پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ أنتُم شهداءُاللہِ في الأرضِ۔
میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے:
﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (البقرة)
ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔
شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1368   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1368  
1368. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:تین بھی۔ پھر ہم نے عرض کیا:دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:دو آدمی بھی۔ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1368]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک آدمی کی گواہی کے متعلق اس لیے سوال نہ کیا گیا کہ گواہی کا نصاب کم از کم دو آدمی ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے گواہی کا نصاب بھی ثابت کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2643)
واضح رہے کہ میت کے متعلق ان لوگوں کی گواہی کا اعتبار ہو گا جو دیندار اور دیانت دار ہوں کیونکہ بدکردار اور فسق و فجور میں مبتلا تو اپنے جیسے ہی کی تعریف کریں گے۔
اور ان لوگوں کی گواہی بھی معتبر نہیں ہو گی جنہیں میت کے ساتھ دشمنی یا حسد ہو، کیونکہ دشمن کی گواہی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
(2)
ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کے چار قریبی پڑوسی اس کے متعلق گواہی دیں کہ ہمیں اس میں خیر کے علاوہ کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری بات کو مان لیا اور جو عیب اور گناہ تمہیں معلوم نہیں تھے میں نے ان سے درگزر کر دیا۔
(مسندأحمد: 242/3)
اس میں کوئی شک نہیں کہ میت کے لیے لوگوں کی تعریف ایک اچھی علامت ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت کسی کی اچھائی یا برائی بیان کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ غیبت میں سے نہیں۔
(فتح الباري: 294/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1368   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.