الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
The Book of Jumu\'ah (Friday Prayer)
30. بَابُ : نُزُولِ الإِمَامِ عَنِ الْمِنْبَرِ، قَبْلَ فَرَاغِهِ مِنَ الْخُطْبَةِ وَقَطْعِهِ كَلاَمَهُ وَرُجُوعِهِ إِلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
30. باب: جمعہ کے دن خطبہ کے خاتمہ سے پہلے امام کے منبر سے اترنے اور خطبہ سے رک جانے پھر دوبارہ منبر کی طرف لوٹنے کا بیان۔
Chapter: The Imam Coming Down From The Minbar Before He Finishes The Khutbah, Interrupting Himself And Going Back To The Minbar
حدیث نمبر: 1414
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد العزيز، قال: حدثنا الفضل بن موسى، عن حسين بن واقد، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب فجاء الحسن والحسين رضي الله عنهما , وعليهما قميصان احمران يعثران فيهما، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم فقطع كلامه , فحملهما ثم عاد إلى المنبر، ثم قال:" صدق الله إنما اموالكم واولادكم فتنة سورة التغابن آية 15 , رايت هذين يعثران في قميصيهما، فلم اصبر حتى قطعت كلامي فحملتهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قال: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , وَعَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَعْثُرَانِ فِيهِمَا، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ كَلَامَهُ , فَحَمَلَهُمَا ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ قَالَ:" صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 , رَأَيْتُ هَذَيْنِ يَعْثُرَانِ فِي قَمِيصَيْهِمَا، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ كَلَامِي فَحَمَلْتُهُمَا".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 233 (1109)، سنن الترمذی/المناقب 31 (3774)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3600)، (تحفة الأشراف: 1958)، مسند احمد 5/354، ویأتی عند المؤلف برقم: 1586 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن النسائى الصغرى1414عامر بن الحصيبصدق الله إنما أموالكم وأولادكم فتنة
   سنن النسائى الصغرى1586عامر بن الحصيبصدق الله إنما أموالكم وأولادكم فتنة
   جامع الترمذي3774عامر بن الحصيبصدق الله إنما أموالكم وأولادكم فتنة
   سنن أبي داود1109عامر بن الحصيبصدق الله إنما أموالكم وأولادكم فتنة
   سنن ابن ماجه3600عامر بن الحصيبصدق الله ورسوله إنما أموالكم وأولادكم فتنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1414  
´جمعہ کے دن خطبہ کے خاتمہ سے پہلے امام کے منبر سے اترنے اور خطبہ سے رک جانے پھر دوبارہ منبر کی طرف لوٹنے کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1414]
1414۔ اردو حاشیہ:
➊ إنصات کا حکم مقتدیوں کے لیے ہے۔ امام صاحب خطبۂ جمعہ کے دوران میں کسی کے ساتھ بات چیت بھی کرسکتے ہیں اور کوئی ضروری کام بھی کرسکتے ہیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نہ اٹھاتے تو آپ کی توجہ انھی کی طرف مبذول رہتی۔ خطبہ تو پھر بھی منقطع ہونا ہی تھا، اس لیے آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ بار بار گرتے اٹھتے رہیں۔ آپ نے نبوی شفقت اور اپنی شان رحیمی کو عمل میں لاتے ہوئے خطبہ منقطع فرمایا، انہیں اٹھایا اور پھر خطبہ شروع کر دیا۔ آپ کا اس آیت کریمہ کا تلاوت فرمانا یہ معنیٰ نہیں رکھتاکہ میں نے جو بچوں کو اٹھایا ہے، وہ غلط کام کیا ہے کیونکہ یہ کام تو عین تقاضائے شفقت و رحمت ہے۔ اگر نہ اٹھاتے تو مناسب نہ ہوتا، بلکہ اس آیت کریمہ کو تلاوت فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس آزمائش میں پورا اترے اور اس کے ساتھ ساتھ گمراہ بھی نہ ہو، حقوق اللہ میں کوتاہی نہ کرے اور ان کے حقوق میں بھی سستی نہ کرے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بہترین نمونہ پیش فرمایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
➋ کسی شدید ضرورت کے پیش نظر خطبے کا تسلسل توڑ دینا، منبر سے اترنا، موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات کر لینا اور پھر جہاں سے چھوڑا وہیں سے خطبہ شروع کر لینا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1414   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1109  
´کسی حادثہ کے پیش آ جانے پر امام خطبہ میں رک سکتا ہے۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں لال قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اتر پڑے، انہیں اٹھا لیا اور لے کر منبر پر چڑھ گئے پھر فرمایا: اللہ نے سچ فرمایا ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» (التغابن: ۱۵) تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا، پھر آپ نے دوبارہ خطبہ دینا شروع کر دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1109]
1109۔ اردو حاشیہ:
➊ کسی معقول عارضے کی بنا پر اگر خطبے کا تسلسل ٹوٹ جائے یا توڑنا پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
➋ حضرا ت حسنین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین نواسے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی راحت جان «ريحانتاي» فرمایا۔ اور جوانان جنت کے سردار ہونے کی بشارت دی ہے۔ ان کے دل نواز تذکرے سے ہم اہل السنۃ والجماعۃ اصحاب الحدیث کے چہرے کھل اٹھتے، سینے ٹھنڈے ہوتے، آنکھیں ادب میں جھک جاتیں اور زبانیں بے ساختہ «رضي الله تعالي عنهم و أرضاهم» پکارنے لگ جاتی ہیں۔ بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ہمیں ان سے عدم محبت کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم محبت کے نام پر انہیں صفات الہٰیہ سے متصف نہیں کرتے کہ انہیں عالم الغیب، مشکل کشا، فریاد رس کہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں افراط و تفریط کے شر سے محفوظ رکھے اور آخرت میں ان مقبولان الہٰی اور محبوبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے سرفراز فرمائے۔ «آمين»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1109   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3600  
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے دیکھا، اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں لال قمیص پہنے ہوئے آ گئے کبھی گرتے تھے کبھی اٹھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترے، دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا، اور فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کا قول سچ ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3600]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ سرخ لباس پہننا جائز ہے۔
ممکن ہے یہ قمیضیں خالص سرخ رنگ کی نہ ہوں۔

(2)
بچوں سے پیار معزز شخصیت کی شان کے خلاف نہیں بلکہ ایک خوبی ہے۔

(3)
خطبے کے دوران میں کسی ضرورت کے تحت منبر سے اترنا جائز ہے۔

(4)
مال اور اولاد کے آزمائش ہونے کا یہ مطلب ہے کہ بہت دفعہ انسان مال اور اولاد کی محبت کی وجہ سے غلط کاموں کا ارتکا ب کر لیتا ہے اس لئے مومن کو احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ مال کى طلب میں یا اولاد کی محبت کی وجہ سے کوئی خلاف شریعت کام نہ ہو جائے۔

(5)
خطبے کے دوران میں موضوع سے غیر متعلق بات کرنے میں حرج نہیں بشرطیکہ وہ ضروری بات ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3600   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3774  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین رضی الله عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» ۱؎ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3774]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
 (التغابن:15)

2؎:
جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپﷺ کے کمال شفقت کی دلیل ہے،
وہیں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے آپﷺ کے نزدیک مقام و مرتبہ کی بھی بات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3774   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.