الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
The Book of Jumu\'ah (Friday Prayer)
27. بَابُ : مُخَاطَبَةِ الإِمَامِ رَعِيَّتَهُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ
27. باب: امام (حاکم) کے خطبہ جمعہ میں منبر پر رعایا سے مخاطب ہونے کا بیان۔
Chapter: The Lmam Addressing His Followers When He Is On The Minbr
حدیث نمبر: 1411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو موسى إسرائيل بن موسى، قال: سمعت الحسن، يقول: سمعت ابا بكرة، يقول: لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن معه، وهو يقبل على الناس مرة وعليه مرة , ويقول:" إن ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين عظيمتين".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى إِسْرَائِيلُ بْنُ مُوسَى، قال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ مَعَهُ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ مَرَّةً , وَيَقُولُ:" إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَظِيمَتَيْنِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، حسن رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، تو کبھی ان کی طرف، اور آپ فرما رہے تھے: میرا یہ بچہ سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 9 (2704)، المناقب 25 (3629)، فضائل الصحابة 22 (3746)، الفتن 20 (7109)، سنن ابی داود/السنة 13 (4662)، سنن الترمذی/المناقب 31 (3773)، (تحفة الأشراف: 11658)، مسند احمد 5/37، 44، 49، 51 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: الحمدللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور امت مسلمہ کے دو گروہ باہم متفق ہو گئے ہوا یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری فرمائی اور ساری امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر متفق ہو گئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري3746نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري3629نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري7109نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   جامع الترمذي3773نفيع بن الحارثابني هذا سيد يصلح الله على يديه فئتين عظيمتين
   سنن أبي داود4662نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإني أرجو أن يصلح الله به بين فئتي
   سنن النسائى الصغرى1411نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظيمتين
   المعجم الصغير للطبراني885نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإن الله سيصلح على يديه بين فئتين عظيمتين من المسلمين
   مسندالحميدي811نفيع بن الحارثإن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1411  
´امام (حاکم) کے خطبہ جمعہ میں منبر پر رعایا سے مخاطب ہونے کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، حسن رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، تو کبھی ان کی طرف، اور آپ فرما رہے تھے: میرا یہ بچہ سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1411]
1411۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ والحمد للہ علی ذالك۔ حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد خلیفہ (سردار) بنائے گئے۔ آپ نصف اسلامی مملکت کے سربراہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں فوج آپ کے ساتھ تھی۔ چالیس ہزار افراد آپ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرچکے تھے۔ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خون ریزی کو اچھا نہ سمجھا اور صلح کا عندیہ دیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی سفید کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ طے فرمائیں، لکھ دیں۔ میرے دستخط پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ اس طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حکو مت کی قربانی دے کر امت کے ان دو عظیم گروہوں کو لڑائی سے بچا لیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ ورنہ کشتوں کے پشتے لگ جاتے اور معاملہ پھر بھی حل نہ ہوتا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا امت پر یہ عظیم احسان ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی انہیں دے گا کہ وہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ صحابہ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے بارے میں اہل علم نے خاموشی اختیار فرمائی ہے کہ ہمیں بزرگوں کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کسی میں غلطی اور نقص نکال کر اپنی زبانوں کو گستاخی اور گناہ سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مغفورلھم لوگ تھے۔ انہیں جنت کی خوش خبری سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مل چکی ہے۔ ہم کون ہیں اور ان کی عیب جوئی کرنے والے۔ پھر اس دور کی صحیح تاریخ کا ملنا بھی یقینی نہیں، لہٰذا یہ معاملات اللہ خبیر و بصیر پر چھوڑ دیے جائیں۔ یہی بات برحق ہے۔
➋ خوارج کا رد ہے جو کہ دونوں گروہوں کو کافر کہتے ہیں۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کے مسلمان ہونے کی گواہی دی ہے۔
➌ لوگوں کے درمیان اصلاح بہت فضیلت والا کام ہے، خصوصاً جب خون خرابہ ہونے کا خطرہ ہو۔
➍ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رعایا پر بہت شفیق اور مہربان تھے، نیز امور مملکت میں بڑی کڑی نظر رکھتے تھے۔ آپ کا صلح کا غیر مشروط مطالبہ اس بات کی بین دلیل ہے۔
➎ کم مرتبے والا شخص، زیادہ فضیلت والے کی موجودگی میں حکمران بن سکتا ہے۔ حضرت حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما حکمران بنے جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما بدری صحابہ موجود تھے۔
➏ خلیفہ بذات خود دستبردار ہو سکتا ہے خصوصاً جبکہ یہ استغفیٰ وسیع تر قومی و ملی مفاد میں ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1411   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا،
چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،
ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا،
تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662  
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔‏‏‏‏ حماد کی روایت میں ہے: شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل:
1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔
ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔

2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔
مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔

3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔

4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4662   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.