الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 142
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ابغض الناس إلى الله ثلاثة ملحد في الحرم وميتغ في الإسلام سنة الجاهلية ومطلب دم امرىء بغير حق ليهريق دمه» رواه البخاري ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى الله ثَلَاثَة ملحد فِي الْحرم وميتغ فِي الْإِسْلَام سنة الْجَاهِلِيَّة ومطلب دم امرىء بِغَيْر حق ليهريق دَمه» رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہیں، حرم میں ظلم و ناانصافی کرنے والا، اسلام میں، جاہلیت کا طریقہ تلاش کرنے والا اور بڑی جدوجہد کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (6882)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري6882عبد الله بن عباسأبغض الناس إلى الله ثلاثة ملحد في الحرم مبتغ في الإسلام سنة الجاهلية مطلب دم امرئ بغير حق ليهريق دمه
   مشكوة المصابيح142عبد الله بن عباسابغض الناس إلى الله ثلاثة ملحد في الحرم وميتغ في الإسلام سنة الجاهلية ومطلب دم امرىء بغير حق ليهريق دمه
   بلوغ المرام1011عبد الله بن عباس إن أعتى الناس على الله ثلاثة : من قتل في حرم الله أو قتل غير قاتله أو لذحل الجاهلية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 142  
´تین بدبخت لوگ `
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى الله ثَلَاثَة ملحد فِي الْحرم وميتغ فِي الْإِسْلَام سنة الْجَاهِلِيَّة ومطلب دم امرىء بِغَيْر حق ليهريق دَمه» رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تین شخص سب سے زیادہ برے ہیں جن سے اللہ سخت ناراض ہے۔ حد حرم میں کجروی اختیار کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کی باتوں کو تلاش کرنے والا، کسی مسلمان کے ناحق خون کا طلب گار کہ اس کے خون کو ناحق بہائے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 142]

فقہ الحدیث
➊ حرم (مکہ یا مدینہ) کی بےحرمتی کرنے کو «الحاد فى الحرم» کہتے ہیں اور اسی طرح بےدینی، کفر اور مذہب سے بیزاری کو بھی الحاد کہاجاتا ہے۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص 1457]
➋ اس حدیث سے حرمین کی فضیلت بھی واضح ہو رہی ہے۔
➌ بعض علماء نے کہا ہے کہ حرم میں برائی کے ارادے پر بھی سزا ملے گی جب کہ حرم سے باہر صرف برائی کے ارادے پر کوئی سزا و مواخذہ نہیں ہے۔
➍ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اگر کوئی شخص (حرم سے دور) عدن میں بھی ہو اور حرم میں الحاد کا ارادہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ [مسند حمد 1؍428 ح4071 وسنده حسن، وصححه الحاكم 2؍388 ووافقه الذهبي]
➎ جاہلیت کے طریقوں میں سے کفر، شرک اور بدعت سب حرام کام ہیں۔ اس حدیث سے بدعت کی مذمت اور سنّت کا اثبات ہوتا ہے۔
مرعاۃ المفاتیح میں میت پر جاہلیت کی طرح رونا پیٹنا ,جوا, بدفعالی اور نجومیوں کے پیشے وغیرہ کو جاہلیت کے طریقوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ [ج 1 ص 238]
➏ دین اسلام میں کسی کا ناحق خون بہانا حرام ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 142   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1011  
´اقسام دیت کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ سرکشی کرنے والے لوگ تین قسم کے ہیں (ایک) جو اللہ کے حرم میں قتل کرے (دوسرا) جو اپنے غیر قاتل کو قتل کرے (تیسرا) وہ جو جاہلیت کی عداوت و دشمنی کی بنا پر قتل کرے۔ ابن حبان نے اس کی تخریج ایک حدیث کے ضمن میں کی ہے۔ جسے انہوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1011»
تخریج:
«أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1699، وللحديث شواهد عند البخاري، الديات، حديث:6882، (من حديث ابن عباس) وغيره.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی سرکشی کرنے والے تین قسم کے آدمیوں کا ذکر ہے۔
ان میں ایک وہ بدنصیب ہے جو بلدامین‘ یعنی مکہ مکرمہ میں قتل ناحق کرتا ہے۔
قتل کرنا ویسے ہی بہت بڑا جرم ہے مگر حرمین شریفین میں قتل کرنا سنگین ترین جرم ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مقام اور جگہ کے لحاظ سے جرم کی سنگینی میں فرق واقع ہو جاتا ہے۔
غالباً اسی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: جو شخص حرم میں قتل خطا کا مرتکب ہو اس پر دیت سخت رکھی جائے۔
2. دوسرا وہ شخص ہے جو اصل قاتل کے سوا بدلے میں کسی اور کو قتل کرتا ہے۔
قاتل سے بدلہ لینا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر جو شخص جوش انتقام میں قاتل کے کسی رشتے دار کو قتل کرتا ہے‘ وہ دہرے جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
3. اور تیسرا وہ شخص ہے جو زمانۂ جاہلیت کا بدلہ کسی مسلمان سے لیتا ہے‘ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی سرکش ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1011   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.