الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
5.05. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 144
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏عن جابر بن عبد الله يقول جاءت ملائكة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا إن لصاحبكم هذا مثلا فاضربوا له مثلا فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فيها مادبة وبعث -[52]- داعيا فمن اجاب الداعي دخل الدار واكل من المادبة ومن لم يجب الداعي لم يدخل الدار ولم ياكل من المادبة فقالوا اولوها له يفقهها فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا فالدار الجنة والداعي محمد صلى الله عليه وسلم فمن اطاع محمدا صلى الله عليه وسلم فقد اطاع الله ومن عصى محمدا صلى الله عليه وسلم فقد عصى الله ومحمد صلى الله عليه وسلم فرق بين الناس. رواه البخاري ‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ -[52]- دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کچھ فرشتے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ سو رہے تھے، انہوں نے کہا: تمہارے اس ساتھی کی ایک مثال ہے، وہ مثال ان کے سامنے بیان کر دو، ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں، جبکہ بعض نے کہا: بے شک آنکھیں سوئی ہوئی ہیں لیکن دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا، اس میں دسترخوان لگایا اور ایک داعی کو بھیجا، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا، اور جس نے داعی کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا نہ دسترخوان سے کھانا کھایا، پھر انہوں نے کہا: اس کی (مزید) وضاحت کردو تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں، پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا: آنکھ سوئی ہوئی ہے اور دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: گھر، جنت ہے، داعی، محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ پس جس شخص نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (7281)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري7281جابر بن عبد اللهجاءت ملائكة إلى النبي وهو نائم فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا إن لصاحبكم هذا مثلا فاضربوا له مثلا فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فيها مأدب
   مشكوة المصابيح144جابر بن عبد اللهجاءت ملائكة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 144  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال `
«. . . ‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ - [52] - دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے ان فرشتوں نے آپس میں کہا کہ ان تمہارے صاحب (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک مثال ہے اس مثال کو بیان کرو۔ ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: آپ سو رہے ہیں مثال بیان کرنے سے کیا فائدہ جب کہ سن نہیں سکتے، ان میں سے بعض فرشتوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کچھ تم بیان کرو گے وہ سمجھ لیں گے)۔ پھر وہ بیان کرنے لگے ان کی ایسی مثال ہے جیسے کسی شخص نے مکان تیار کیا اور لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے دسترخوان چنا یعنی دعوت کا انتظام کیا۔ اور لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ایک شخص کو بھیجا (یہ بلانے والا سب کو دعوت دے رہا ہے) تو جس نے اس بلانے والے کی دعوت منظور کر لی اور اس کے ساتھ ساتھ چلا آیا تو اس کے ساتھ اس مکان میں داخل ہو گا اور چنے ہوئے دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا۔ اور جس نے اس دعوت دینے والے کی بات نہ مانی اور نہ دعوت کو قبول کیا تو وہ نہ مکان ہی میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ دعوت کا کھانا ہی کھا سکتا ہے۔ ان فرشتوں نے کہا: بہت بہترین مثال ہے لیکن اس مثال کی توضیح وتشریخ کر دو تاکہ آپ سمجھ لیں۔ اس پر بعض نے کہا: آپ سو رہے ہیں۔ (کیا سمجھیں گے) دوسرے نے جواب دیا آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کہو گے آپ صاف صاف سمجھ جائیں گے) تو پھر وہ کہنے لگے وہ مکان تو جنت ہے (اور اس کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اس نے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ہے کہ آپ بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت منظور کر لی اور آپ کی اطاعت کر لی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور مکان جنت میں داخل ہو گا۔ اور وہاں کی نعمتوں کو کھائے گا) اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، نہ وہ جنت میں داخل ہو گا اور نہ وہاں کی نعمتوں کو کھا سکتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے اور تیز کرنے والے ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 144]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7281]

فقہ الحدیث
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا اصل میں قرآن مجید پر عمل کرنا ہی ہے۔
➋ انبیاء اور رسولوں کے خواب سچے ہوتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
➌ نیند کی حالت میں آپ کے دل کے بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا اور نہ آپ عام آدمی کی طرح غفلت کی نیند سوتے تھے۔
↰ یاد رہے کہ آپ کے علاوہ ہر انسان کا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: الترمذی [96 وسنده حسن وقال: هٰذا حديث حسن صحيح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت فرض ہے۔
➎ لوگوں میں فرق اور جدائی کی وجہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول مانتے ہیں، قرآن و حدیث کو دین اسلام تسلیم کرتے ہیں، وہ ایک امت ہیں اور ان کے مقابلے میں سارے کفار (اور شدید مبتدعین) ایک ملت ہیں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اور اسلام و کفر کا مقابلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کا آنا اور ان کی یہ گفتگو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث بھی وحی ہے۔
➐ اس مثال کی تشریح بیان کریں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ جائیں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں تھے۔
➑ اگر کسی شخص میں اچھی خصلت ہو تو اس کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن خوشامد اور چاپلوسی جائز نہیں ہے۔
➒ یہ فرشتے کون تھے؟ ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ دیکھئے: فتح الباری [255/13]
↰ لیکن سنن الترمذی [2860] کی ایک منقطع روایت میں آیا ہے کہ یہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے۔ امام ترمذی یہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ حدیث مرسل ہے۔ سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی۔‏‏‏‏ [مطبوعه دارالسلام 642]
◄ معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے میں سکوت بہتر ہے۔

تنبیہ:
جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام کے نام قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ [دیکھئے سورۃ البقرۃ: 98]
◄ اسرافیل علیہ السلام کا نام صحیح مسلم [770، دارالسلام: 1811] میں مذکور ہے، لیکن موت کے فرشتے (ملک الموت) کا نام عزرائیل کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
↰ وہب بن منبہ تابعی سے ایک موقوف (مقطوع) روایت میں یہ نام آیا ہے، لیکن اس کی سند میں محمد بن ابراہیم بن العلاء منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: [العظمة لابي الشيخ الاصبهاني 3؍848 ح394، 3؍900 ح439]
لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
↰ اشعث نامی کسی تبع تابعی سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
ملک الموت علیہ السلام کا نام عزرائیل ہے۔ [كتاب العظمة لابي الشيخ ج3 ص909 ح443 وسنده صحيح]
↰ اشعث تک سند صحیح ہے اور اشعث کے بارے میں شیخ رضاء اللہ بن محمد ادریس مبارکپوری لکھتے ہیں:
وہ اشعث بن اسلم العجلی البصری الربعی ہیں۔ [ايضا مترجما]
↰ اشعث بن اسلم رحمہ اللہ کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ثقة» [تاريخ يحييٰ بن معين، رواية الدوري: 3403، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 2؍269 وسنده صحيح]
↰ حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ [6؍63]
◄ معلوم ہوا کہ عزرائیل کا لفظ تبع تابعین کے دور سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
➓ اگر کسی عذر کی وجہ سے کسی شخص سے بلا واسطہ (ڈائرکٹ) بات کرنا ممکن یا مناسب نہ ہو تو خوش اخلاقی اور اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ذریعے سے اس شخص تک اپنی بات پہنچانا جائز ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 144   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.