الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
26. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الطِّفْلِ
26. باب: بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1508
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الربيع بن بدر ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا استهل الصبي، صلي عليه وورث".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بچہ (پیدائش کے وقت) روئے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2708)، و قد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 43 (1032)، سنن الدارمی/الفرائض 47 (3168) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 236)» ‏‏‏‏

It was narrated from Jabir bin ‘Abdullah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “If a child utters a sound (after being born), the funeral prayer should be offered for him and (his relatives) may inherit from him.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
ترمذي (1532) وانظر الحديث الآتي (2750)
الربيع بن بدر: متروك
وللحديث شواهد كلھا ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 432

   سنن ابن ماجه2750جابر بن عبد اللهإذا استهل الصبي صلي عليه وورث
   سنن ابن ماجه1508جابر بن عبد اللهإذا استهل الصبي صلي عليه وورث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1032  
´ناتمام بچے کی نماز جنازہ کا حکم`
«عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی نہ وہ کسی کا وارث ہو گا اور نہ کوئی اس کا وارث ہو گا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں۔ [سنن ترمذي 1032]

فقہ الحدیث
↰ اس روایت کو امام ترمذی [1032] نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں ابوالزبیر مشہور مدلس ہیں اور سماع کی صراحت بھی نہیں، لہٰذا یہ ابوالزبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

اس روایت کے دیگر شواہد بھی ملاحظہ کیجئیے:
«اذا استهل الصبي صلى عليه و ورت» جب بچہ چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی بنے گا۔ [ابن ماجہ 1508]
↰ یہ روایت ربیع بن بدر متروک [التقریب: 1883] اور ابوالزبیر عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➋ انہیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت ابن حبان [6032] میں بھی موجود ہے اور اس میں سفیان ثوری اور ابوالزبیر دونوں کا عنعنہ ہے، لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت المستدرک للحاکم [348/4] میں بھی اسی علت کے ساتھ موجود ہے۔
واضح رہے کہ اس روایت کے تمام طرق اور شواہد ضعف سے خالی نہیں، پس ان سے استدلال جائز نہیں ہے۔

تنبیہ: بعض اہل علم ایسی روایات کو بطور شاہد نقل کرتے ہیں جن میں سرے سے «لا يصلي عليه» ہے ہی نہیں، مثلاً صحیح ابن حبان کی مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے جناب شعیب ارناوط صاحب سنن ابن ماجہ [2751] کی ایک صحیح حدیث: «لا يرث الصبي حتي يستهل صارخا» (ولادت کے بعد) بچہ اگر آواز سے نہ روئے تو وہ وارث نہیں ہوتا۔ کو بطور شاہد نقل کر رہے ہیں۔ دیکھئے ابن حبان [394/13]
↰ حالانکہ اس میں سرے سے نماز جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہی نہیں، لہٰذا «لا يصلي عليه» کا یہ حدیث قطعاً شاہد نہیں بن سکتی۔

قارئین کرام! مذکورہ بحث سے معلوم ہوا جو علمائے کرام بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے رونے یا چیخ مارنے کی قید لگاتے ہیں ان کا استدلال ضعیف روایات سے ہے، اس کے برعکس صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
چنانچہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل جانے والے اس ک آگے پیچھے اور دائیں بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور ناتمام پیدا ہونے والے بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت و رحمت کی جائے۔ [سنن ابي داود 3180 وسنده صحيح]
↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، یعنی مردہ حالت میں پیدا ہو تب بھی اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔

◈ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام چھوٹے بچے کی نماز جنازہ ادا کی، میں نہیں جانتا کہ وہ رویا تھا یا نہیں، آپ نے اس کے گھر میں جنازہ پڑھا، پھر اسے تدفین کے لیے بھیج دیا۔ [مصنف عبدالرزاق 530/3 واللفظ له، مصنف ابن ابي شيبته 9/3 ح 11584 وسنده صحيح]

◈ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: «يصلي على الصغير كما يصلي على الكبير»
جس طرح بڑے کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح چھوٹے بچے کی بھی ادا کی جائے گی۔ [مصنف ابن أبي شيبة 10/3 ح 11591 وسنده صحيح]

◈ابن سیرین رحمہ اللہ کی دوسری روایت میں «السقط» کے الفاظ بھی ہیں۔ دیکھئے [ابن ابي شيبه 10/3، ح 11588 وسندہ حسن]

◈امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایسے بچے کی نماز جنازہ سے متعلق پوچھا گیا: «يصلي عليه وان لم يستهل، قال: نعم» بچے کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اگرچہ وہ نہ روئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسائل الامام احمد رواية ابنه عبدالله: 529]

راجح موقف: صحیح حدیث اور اثر صحابی کی رُو سے راجح یہی ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، چیخ مارے یا نہ مارے بہرصورت اس کی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، اس کے برعکس موقف اس لیے قابل التفات نہیں کہ اس کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے۔ «هذا ما عندي والله ا علم بالصواب»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1508  
´بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بچہ (پیدائش کے وقت) روئے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مذکورہ روایت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں۔
ایک بچے کی نماز جنازہ کا، جس کا ذکر گزشتہ روایت میں بھی ہے۔
اور ہمارے فاضل محقق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوسرا مسئلہ بچے کے وارث ہونے کا ہے۔
یہ مسئلہ سنن ابن ماجہ کی ایک دوسری روایت 2751 میں بھی مروی ہے۔
جسے ہمارے فاضل محقق نے سنداً حسن قرار دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر روایات کی رو سے قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم: 153، 152)

(2)
پیدائش کے وقت بچے کا رونا اس کے زندہ پیدا ہونے کی علامت ہے۔
اس لئے جب وہ زندہ پیدا ہونے کے تھوڑی دیر بعد فوت ہو جائے۔
تو اس کا حکم وہی ہوگا جو طویل عرصہ تک زندہ رہ کرفوت ہونے والے کا ہوگا۔
گزشتہ حدیث کے فوائد ومیں بیان ہوچکا ہے۔
کہ جنازہ نا تمام بچے کا بھی پڑھا جائے گا۔
البتہ وراثت کےلئے شرط ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو یعنی مردہ پیدا ہونے والا بچہ وارث نہیں ہوگا۔
اس لئے اس کی وراثت بھی تقسیم نہیں ہوگی۔
اگرچہ تخلیق مکمل ہونے پر پیدا ہواہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1508   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.