الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
44. بَابُ تَوْرِيثِ دُورِ مَكَّةَ وَبَيْعِهَا وَشِرَائِهَا:
44. باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث ہو سکتے ہیں ان کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔
(44) Chapter. What is said regarding the inheritance, sale and purchase of the houses of Makkah.
حدیث نمبر: Q1588
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
خاصة لقوله تعالى: إن الذين كفروا ويصدون عن سبيل الله والمسجد الحرام الذي جعلناه للناس سواء العاكف فيه والباد ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب اليم سورة الحج آية 25 , البادي: الطاري معكوفا محبوسا.خَاصَّةً لِقَوْلِهِ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ سورة الحج آية 25 , الْبَادِي: الطَّارِي مَعْكُوفًا مَحْبُوسًا.
‏‏‏‏ مسجد الحرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحج) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد الحرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لفظ «بادي» باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور «معكوفا» کا لفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔

حدیث نمبر: 1588
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا اصبغ، قال: اخبرني ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، عن عمرو بن عثمان، عن اسامة بن زيدرضي الله عنهما، انه قال:" يا رسول الله، اين تنزل في دارك بمكة؟ , فقال: وهل ترك عقيل من رباع او دور، وكان عقيل ورث ابا طالب هو وطالب، ولم يرثه جعفر ولا علي رضي الله عنهما شيئا لانهما كانا مسلمين، وكان عقيل وطالب كافرين، فكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: لا يرث المؤمن الكافر، قال ابن شهاب: وكانوا يتاولون قول الله تعالى: إن الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا باموالهم وانفسهم في سبيل الله والذين آووا ونصروا اولئك بعضهم اولياء بعض سورة الانفال آية 72".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ؟ , فَقَالَ: وَهَلْ تَرَكَ عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ، فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانُوا يَتَأَوَّلُونَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ سورة الأنفال آية 72".
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ (سب بیچ کھوچ کر برابر کر دئیے) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ (ابتداء میں) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

Narrated 'Usama bin Zaid: I asked, "O Allah's Apostle! Where will you stay in Mecca? Will you stay in your house in Mecca?" He replied, "Has `Aqil left any property or house?" `Aqil along with Talib had inherited the property of Abu Talib. Jafar and `Ali did not inherit anything as they were Muslims and the other two were non-believers. `Umar bin Al-Khattab used to say, "A believer cannot inherit (anything from an) infidel." Ibn Shihab, (a sub-narrator) said, "They (`Umar and others) derived the above verdict from Allah's Statement: "Verily! those who believed and Emigrated and strove with their life And property in Allah's Cause, And those who helped (the emigrants) And gave them their places to live in, These are (all) allies to one another." (8.72)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 658


   صحيح البخاري3058أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة المحصب حيث قاسمت قريش على الكفر وذلك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يبايعوهم ولا يؤووهم
   صحيح البخاري1588أسامة بن زيدهل ترك عقيل من رباع أو دور
   صحيح مسلم3294أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل من رباع أو دور
   صحيح مسلم3296أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل من منزل
   صحيح مسلم3295أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا
   سنن أبي داود2910أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون بخيف بني كنانة حيث تقاسمت قريش على الكفر يعني المحصب وذاك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يناكحوهم ولا يبايعوهم ولا يئووهم
   سنن ابن ماجه2942أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة يعني المحصب حيث قاسمت قريش على الكفر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2942  
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے؟ ۱؎ پھر فرمایا: ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2942]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس واقعہ میں قبائل کے جس معاہدے کا ذکر ہے اسی کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین سال تک شعب بنی ہاشم میں رہنا پڑا تھا جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں۔

(2)
مزید فوائد کے لیے ملاحظہ کیجیے (حدیث: 2730)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2942   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2910  
´کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‏‏‏‏ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2910]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ابو طالب کی وفات کے موقع پر عقیل اسلام نہ لائے تھے، اسی وجہ سے وہی اس کے وارث ہوئے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔
اس لئے وہ اختلاف دین کی وجہ سے اپنے باپ کے وارث نہ بنے۔
اور عقیل جوں ہی عبد المطلب کی جایئداد کے مالک بنے۔
انہوں نے اس کو فروخت کر دیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2910   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1588  
1588. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1588]
حدیث حاشیہ:
مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر ؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ اور ثوری ؒ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔
امام ابویوسف ؒ (شاگرد امام ابوحنیفہ ؒ)
کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔
اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔
اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔
حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔
سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔
عقیل، طالب، جعفر اور علی۔
علی اور جعفر نے تو آنحضرت ﷺ کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔
انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔
آنحضرت ﷺ نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔
کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔
داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔
آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔
اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔
انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔
اسی میں آنحضرت ﷺ کا حصہ بھی تھا۔
آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔
اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔
بعد میں یہ آیت اتری:
﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾ (الأنفال: 75)
یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔
خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔
اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا﴾ (الأنفال: 72)
یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔
جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1588   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1588  
1588. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1588]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکہ مکرمہ کے مکانات میں وراثت چلتی ہے کیونکہ ان کے متعلق حق ملکیت ثابت ہے۔
سردار ابو طالب کے چار بیٹے تھے:
عقیل، طالب، حضرت جعفر اور حضرت علی۔
مؤخر الذکر دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے۔
طالب جنگ بدر میں مارا گیا۔
عقیل کو اپنے باپ ابو طالب کی تمام جائیداد مل گئی۔
چونکہ یہ جائیداد ہاشم کی تھی جو پہلے عبدالمطلب کو منتقل ہوئی، اس نے اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر دی۔
اس میں رسول اللہ ﷺ کے باپ عبداللہ کا بھی حصہ تھا، لیکن آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔
آپ اپنے باپ کے حصے میں پڑاؤ کر سکتے تھے لیکن آپ اللہ کے لیے ہجرت کر کے گئے تھے، اس لیے وہاں پڑاؤ کرنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ہوا یوں کہ عقیل نے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے مکان پر بھی قبضہ کر لیا تھا، پھر اسے فروخت کر دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ ہم اس میں رہیں۔
(2)
بہرحال احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں میں لوگوں کا حق ملکیت قائم تھا۔
اس میں وراثت اور بیع و اجارہ کے معاملات بھی ہوتے تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، چنانچہ سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں نافع بن عبدالحارث نے صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے مکہ میں اس شرط پر خریدا کہ اگر سیدنا عمر ؓ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پختہ ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرائے کے مل جائیں گے۔
(صحیح البخاري، الخصومات، باب: 8) (3)
امام بخاری ؒ عنوان اور پیش کردہ روایات سے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کو فروخت کرنے یا انہیں کرائے پر دینے کی ممانعت ہے۔
(فتح الباري: 568/3)
امام ابن خزیمہ ؒ لکھتے ہیں کہ اگر مسجد حرام کا اطلاق تمام حرم پر صحیح ہو تو حرم کے اندر کنواں کھودنا، قبر بنانا، بول و براز کرنا، تعلقات زن و شو قائم کرنا، مردار اور بدبودار چیزوں کو پھینکنا جائز نہ ہو۔
ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے حرم میں ان کاموں سے منع نہیں کیا اور نہ حائضہ اور جنبی کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے پر پابندی لگائی ہے، نیز اگر ایسا ہو تو مکہ کے مکانات اور اس کی دوکانوں میں اعتکاف بیٹھنا بھی جائز ہو اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
(فتح الباري: 569/3)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا، اسے آپ نے مرفوع حدیث کے طور پر بھی روایت کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6764)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1588   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.