الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
24. باب مَنْ يُعْطَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَحَدِّ الْغِنَى
24. باب: زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟
Chapter: To Whom Zakat Is To Be Paid And The Definition Of A Wealthy Person.
حدیث نمبر: 1627
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن رجل من بني اسد، انه قال: نزلت انا واهلي ببقيع الغرقد، فقال لي اهلي: اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئا ناكله فجعلوا يذكرون من حاجتهم، فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدت عنده رجلا يساله ورسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا اجد ما اعطيك"، فتولى الرجل عنه وهو مغضب، وهو يقول: لعمري إنك لتعطي من شئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يغضب علي ان لا اجد ما اعطيه، من سال منكم وله اوقية او عدلها فقد سال إلحافا"، قال الاسدي: فقلت للقحة: لنا خير من اوقية والاوقية اربعون درهما، قال: فرجعت ولم اساله، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك شعير وزبيب فقسم لنا منه، او كما قال: حتى اغنانا الله عز وجل. قال ابو داود: هكذا رواه الثوري كما قال مالك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَقَالَ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فَجَعَلُوا يَذْكُرُونَ مِنْ حَاجَتِهِمْ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ"، فَتَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ: لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا"، قَالَ الْأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ لَلِقْحَةٌ: لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ فَقَسَمَ لَنَا مِنْهُ، أَوْ كَمَا قَالَ: حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ كَمَا قَالَ مَالِكٌ.
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎، اسدی کہتے ہیں: میں نے (اپنے جی میں) کہا: ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، «أو كما قال» یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 90 (2597)، (تحفة الأشراف:15640)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصدقة 1(3)، مسند احمد (4/36،5/430) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث میں الحاف ہے یعنی الحاح اور شدید اصرار، ایسا سوال کرنا قرآن کے مطابق ناپسندیدہ عمل ہے۔

Ata bin Yasar said: A man from Banu Asad said: I and my family alighted at Baqi al-Gharqad. My wife said to me: Go the Messenger of Allah ﷺ and beg something from him for our eating, and made a mention of there need. So I went to the Messenger of Allah ﷺ. I found with a man who was begging from him and he was saying to him: I have nothing to give you. The man turned away from him in anger while he was saying: By my life, you give anyone you wish. The Messenger of Allah ﷺ said: He’s anger with me, for I have nothing to give him. If any of you begs when he has an Uqiyah or its equivalent, he has begged immoderately. The man of Banu Asad said: So I said: The she camel of ours is better than an uqiyah, while an uqiyah is equivalent to 40 Dirhams. I therefore returned and did not beg from him. Afterwards some barley and raisins where brought to the Messenger of Allah ﷺ. He gave us a share from them (or as he reported)till Allah, the Exalted, made us self-sufficient (i. e well off). Abu Dawud said: Al-Thawri narrated it as Malik narrated.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1623


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1849)
أخرجه النسائي (2597 وسنده صحيح)

   سنن أبي داود1627موضع إرسالمن سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا
   سنن النسائى الصغرى2597موضع إرسالمن سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1627  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎، اسدی کہتے ہیں: میں نے (اپنے جی میں) کہا: ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، «أو كما قال» یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1627]
1627. اردو حاشیہ: امام ابو عبید قاسم بن سلام اس حدیث کی روشنی میں غنی اور فقیر میں فرق کرتے ہیں۔کے جس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی مال موجود ہو وہ فقیر نہیں ہے اور اسے صدقہ دیناجائز نہیں بلاشبہ تقوے کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔اگر احوال وظروف کے پیش نظر اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔مثلا ً قرآن کریم نے قصہ موسیٰ ؑ وخضرؑ میں کشتی والوں کو مساکین سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ کہف) لہذا جس آدمی کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے خود ہی سوچنا چاہیے۔ کہ واقعی وہ مانگنے کا حق رکھتاہے یا نہیں۔
➋ یہ واقعہ دلیل ہے کہ بنو اسد کا یہ شخص فطری سلامتی کے ساتھ ساتھ برکات ایمان سے بہرہ ور تھا۔اورصحبت رسول ﷺنے اس کا مزید تزکیہ کردیا تھا۔کہ باوجود سخت حاجت مند ہونے کے نبی کریمﷺ کے چند جملے سن کر محتاط ہوگیا اور سوال نہ کیا۔بلاشبہ انہی فضائل کی بناء پر یہ حضرات صحبت رسول ﷺ کے لائق تھے۔اور ہمارے سلف صالح کہلاتے ہیں۔جن کی قرآن مجید نے جا بجا مدح کی ہے۔
➌ عمر اور زندگی کی قسم کھانا جائز نہیں مذکورہ بالاشخص جس نے یہ قسم کھائی تھی نیا نیا مسلمان ہوا تھااور تعلیمات اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1627   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.