98. باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔
(98) Chapter. Whosoever sent the weak amongst his family (women and children) early (from Al-Muzdalifa to Mina) at night after the moon had set. They stayed at Al-Muzdalifa and invoked Allah there and proceeded from there when the moon had set.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات عام لوگوں سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت چاہی آپ رضی اللہ عنہا بھاری بھر کم بدن کی عورت تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔
Narrated `Aisha: Sauda asked the permission of the Prophet to leave earlier at the night of Jam', and she was a fat and very slow woman. The Prophet gave her permission.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 740
استأذنت النبي سودة أن تدفع قبل حطمة الناس وكانت امرأة بطيئة فأذن لها فدفعت قبل حطمة الناس وأقمنا حتى أصبحنا نحن ثم دفعنا بدفعه فلأن أكون استأذنت رسول الله كما استأذنت سودة أحب إلي من مفروح به
وددت أني استأذنت رسول الله كما استأذنته سودة فصليت الفجر بمنى قبل أن يأتي الناس وكانت سودة امرأة ثقيلة ثبطة فاستأذنت رسول الله فأذن لها فصلت الفجر بمنى ورمت قبل أن يأتي الناس
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 621
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واپس آ جائیں (یہ اجازت انہوں نے اس لئے طلب کی) کہ بھاری جسم والی تھیں۔ (اس وجہ سے آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 621]
621 فائدہ: بیماری اور جسمانی کمزوری کے علاوہ بھاری بھر کم جسم بھی معذوری میں شامل ہے۔ ایسے حاجی کو بھی مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر منیٰ کی طرف جانے کی رخصت و اجازت ہے۔
وضاحت: حضرت سودہ بنت زمعہ بن عبد شمس قرشیہ عامریہ رضی اللہ عنہا، امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ ہی میں ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور اپنے خاوند کے ساتھ دوسری ہجرت میں شریک ہوئیں۔ ان کا خاوند وہاں فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے پہلے مکہ میں ان کے ساتھ وظیفہء زوجیت ادا کیا اور 55 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 621