الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
35. بَابُ الرَّجُلِ يُوَضِّئُ صَاحِبَهُ:
35. باب: اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے۔
(35) Chapter. (What is said regarding) a man who helps his companion to perform ablution (by pouring water for him).
حدیث نمبر: 181
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن سلام، قال: اخبرنا يزيد بن هارون، عن يحيى، عن موسى بن عقبة، عن كريب مولى ابن عباس، عن اسامة بن زيد،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما افاض من عرفة عدل إلى الشعب فقضى حاجته، قال اسامة بن زيد: فجعلت اصب عليه ويتوضا، فقلت: يا رسول الله، اتصلي؟ فقال: المصلى امامك"‏‏.‏(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفَاضَ مِنْ عَرَفةَ عَدَلَ إِلَى الشِّعْبِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي؟ فَقَالَ: الْمُصَلَّى أَمَامَكَ"‏‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے یحییٰ سے خبر دی، وہ موسیٰ بن عقبہ سے، وہ کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام سے، وہ اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ سے لوٹے، تو (پہاڑ کی) گھاٹی کی جانب مڑ گئے، اور رفع حاجت کی۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (اعضاء) پر پانی ڈالنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے رہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ (اب) نماز پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا مقام تمہارے سامنے (یعنی مزدلفہ میں) ہے۔ وہاں نماز پڑھی جائے گی۔


Hum se Muhammed bin Salaam ne bayan kiya, kaha hum ko Yazeed bin Haroon ne Yahya se khabar di, woh Musa bin Uqbah se, woh Kuraib Ibn-e-Abbas ke aazaad kardah ghulam se, woh Usama bin Zaid se naql karte hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam jab Arafah se laute, to (pahaad ki) ghaati ki jaanib mud gaye, aur rafa-e-haajat ki. Usama kehte hain ke phir (Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Wuzu kiya aur) main Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke (aazaa) par paani daalne laga aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Wuzu farmaate rahe. Main ne kaha ya Rasoolallah! Aap (ab) Namaz padhenge? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya Namaz ka maqam tumhaare saamne (yani Muzdalifah mein) hai. Wahaan Namaz padhi jaayegi.

Narrated Usama bin Zaid: "When Allah's Apostle departed from `Arafat, he turned towards a mountain pass where he answered the call of nature. (After he had finished) I poured water and he performed ablution and then I said to him, "O Allah's Apostle! Will you offer the prayer?" He replied, "The Musalla (place of the prayer) is ahead of you (in Al-Muzdalifa).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 181


   صحيح البخاري181أسامة بن زيدالمصلى أمامك
   صحيح البخاري1667أسامة بن زيدتوضأ فقلت يا رسول الله أتصلي فقال الصلاة أمامك
   صحيح البخاري139أسامة بن زيدالصلاة أمامك ركب فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ فأسبغ الوضوء ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله ثم أقيمت العشاء فصلى ولم يصل بينهما
   صحيح البخاري1672أسامة بن زيدالصلاة أمامك جاء المزدلفة فتوضأ فأسبغ ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله ثم أقيمت الصلاة فصلى ولم يصل بينهما
   صحيح مسلم3087أسامة بن زيدالصلاة أمامك ركب رسول الله حتى أتى المزدلفة فصلى ردف الفضل رسول الله غداة جمع
   صحيح مسلم3104أسامة بن زيدأفاض من عرفة فلما جاء الشعب أناخ راحلته ثم ذهب إلى الغائط فلما رجع صببت عليه من الإداوة فتوضأ ثم ركب ثم أتى المزدلفة فجمع بها بين المغرب والعشاء
   صحيح مسلم3103أسامة بن زيددعا بوضوء فتوضأ وضوءا خفيفا فقلت يا رسول الله الصلاة فقال الصلاة أمامك
   صحيح مسلم3102أسامة بن زيدالصلاة أمامك ركب حتى جئنا المزدلفة فأقام المغرب
   صحيح مسلم3101أسامة بن زيدالصلاة أمامك سار حتى بلغ جمعا فصلى المغرب والعشاء
   صحيح مسلم3100أسامة بن زيدانصرف رسول الله بعد الدفعة من عرفات إلى بعض تلك الشعاب لحاجته فصببت عليه من الماء فقلت أتصلي فقال المصلى أمامك
   صحيح مسلم3099أسامة بن زيدالصلاة أمامك ركب فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ فأسبغ الوضوء ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله ثم أقيمت العشاء فصلاها ولم يصل بينهما شيئا
   سنن أبي داود1925أسامة بن زيدالصلاة أمامك ركب فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ فأسبغ الوضوء ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله ثم أقيمت العشاء فصلاها ولم يصل بينهما شيئا
   سنن النسائى الصغرى3027أسامة بن زيدالمصلى أمامك
   سنن النسائى الصغرى3028أسامة بن زيدالصلاة أمامك أتينا المزدلفة لم يحل آخر الناس حتى صلى
   سنن ابن ماجه3019أسامة بن زيدالصلاة أمامك انتهى إلى جمع أذن وأقام ثم صلى المغرب ثم لم يحل أحد من الناس حتى قام فصلى العشاء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم178أسامة بن زيدالصلاة امامك
   مسندالحميدي558أسامة بن زيددفعت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة فلما أتى الشعب نزل؟ فبال ولم يقل هراق الماء، ثم آتيته بالإداوة فتوضأ وضوءا خفيفا؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 181  
´اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے`
«. . . عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفَاضَ مِنْ عَرَفةَ عَدَلَ إِلَى الشِّعْبِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي؟ فَقَالَ: الْمُصَلَّى أَمَامَكَ "‏‏.‏ . . .»
. . . کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام سے، وہ اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ سے لوٹے، تو (پہاڑ کی) گھاٹی کی جانب مڑ گئے، اور رفع حاجت کی۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (اعضاء) پر پانی ڈالنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے رہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ (اب) نماز پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا مقام تمہارے سامنے (یعنی مزدلفہ میں) ہے۔ وہاں نماز پڑھی جائے گی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الرَّجُلِ يُوَضِّئُ صَاحِبَهُ:: 181]

تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو میں دوسرے آدمی کی مدد لینا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 181   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 178  
´قصر نمازمیں سنتوں کی ادائیگی نہیں ہے`
«. . . مالك عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن اسامة بن زيد انه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضا ولم يسبغ الوضوء، فقلت له: الصلاة، فقال: الصلاة امامك. فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا واسبغ الوضوء، ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم اناخ كل إنسان بعيره فى منزله، ثم اقيمت العشاء فصلاها، ولم يصل بينهما شيئا . . .»
. . . سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے حتیٰ کہ جب (مزدلفہ سے پہلے) ایک گھاٹی پر اترے تو پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہ کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور جب مزدلفہ میں پہنچے تو اتر کر وضو کیا اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا۔ پھر عشاء کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 178]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 139، ومسلم 1280، من حديث مالك به]
تفقه:
① مزدلفہ پہنچ کر نماز بلاتاخیر پڑھنی چاہئے۔ صحابہ نے سواریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظار نہیں کیا، مغرب کی نماز پڑھ کر سواریاں بٹھائیں۔
پورا وضو نہ کیا سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخفیف فرمائی، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں «باب التخفيف فى الوضوء» سے وضاحت کی ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري قبل حديث: 138] یعنی اعضائے وضو پر پانی کم بہایا اور زیادہ مَلنے یا دھونے کے بجائے ایک دفعہ پر ہی اکتفا کیا۔ «والله اعلم»
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ میں پڑھتے تھے۔ [الموطأ 1/401 ح927 وسنده صحيح]
④ بعض لوگ ایام حج میں پوری نمازیں پڑھتے رہتے ہیں، ان کا یہ عمل احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر کر فرمایا: اے مکے والو! اپنی نمازیں پوری کرو، ہم مسافر ہیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں تو ہم تک یہ نہیں پہنچا کہ انہوں نے مکے والوں سے کچھ فرمایا ہو۔ [الموطأ 4٠2/1 4٠3 ح93٠ وسنده صحيح]
عرفات سے واپسی کے بعد مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ کی وادی میں جمع کر کے (اور قصر کے ساتھ) پڑھنی چاہئیں- ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنتیں یا نوافل نہیں ہیں- نیز دیکھئے حدیث: 488
⑥ امام مالک نے فرمایا: مکے والے بھی حج (کے دنوں) میں مکہ واپس آنے تک دو دو رکعتیں ہی پڑھیں گے۔ [الموطا 1 / 402 وترقيم الاستذكار: 868]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 190   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3019  
´ضرورت پڑنے پر عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، تو میں نے عرض کیا: نماز (پڑھ لی جائے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز تمہارے آگے (پڑھی جائے گی) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو اذان دی، اقامت کہی، اور مغرب پڑھی، پھر کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور عشاء پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3019]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
عرفات سے واپسی پر مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کی جاتیں ہیں۔

(2)
دونمازیں ایک اذان سے ادا کی جاتی ہیں، البتہ اقامت دونوں کے لیے الگ الگ ہوتی ہے۔

(3)
اس موقع پر مغرب اور عشاء کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کرلینا درست ہے۔

(4)
مزدلفہ میں ٹھرنا حج کا رکن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3019   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:181  
181. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ جب عرفات سے واپس ہوئے تو گھاٹی کی طرف گئے اور حاجت سے فارغ ہوئے۔ حضرت اسامہ ؓ نے کہا: پھر میں نے پانی ڈالنا شروع کیا اور آپ وضو فرماتے رہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نماز پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا: نماز کی جگہ تیرے آگے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:181]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لیے کسی دوسرے سے وضو کا پانی منگوانا ناپسند خیال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم کسی دوسرے کو اپنے وضو میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن استنادی اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں۔
صحیح روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وضو کے متعلق دوسروں سے تعاون لینا ثابت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو وضو کرا سکتا ہے۔
اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مریض کو جب تیمم کرنے کی طاقت نہ ہوتو دوسرا شخص اسے تیمم کرا سکتا ہے۔
مگر جب مریض نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو کوئی دوسراشخص اس کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔
(شرح ابن بطال: 278/1)

وضو کے سلسلے میں اعانت کی تین صورتیں ہیں:
(الف)
۔
کسی شخص سے وضو کرنے کے لیے پانی منگوانا، اس میں کوئی کراہت نہیں، یہ بلاشبہ جائز ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خلاف اولیٰ قرار دیا ہے۔
(ب)
۔
وضو خود کرے لیکن اعضائے وضو پرپانی ڈالنے کے لیے کسی دوسرے سے مدد لے، یہ بھی جائز ہے، لیکن اسے بہتر نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(ج)
۔
عمل وضو میں مدد لینا، یعنی پانی دوسرا شخص ڈالے اور اعضائے وضو کو بھی دھوئے، اس قسم کی مدد کسی مجبوری کی وجہ سے تو جائز ہے لیکن بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ فعل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان میں تو اعانت کی اقسام کی گنجائش ہے، لیکن جو روایات پیش فرمائی ہیں۔
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اعانت کی دوسری قسم کا جواز پیش نظر ہے کیونکہ ان روایات میں صراحت ہے کہ حضرت اسامہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما صرف پانی ڈال رہے تھے، لیکن وضو کا عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دیتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی خدمات، خدام سے لی جاسکتی ہیں۔
(عمدة القاري: 516/2)

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:
نماز کی جگہ تیرے آگے ہے۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ جا رہے تھے۔
نویں ذوالحجہ کو (نو اور دس ذوالحجہ کی درمیانی شب)
نماز مغرب اور نمازعشاء مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا کہ آج مغرب کی نماز کا مقام مزدلفہ ہے جو آگے آ رہا ہے، وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکھٹی ادا کی جاتی ہیں۔
اس کے متعلق دیگرمسائل کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
إن شاء اللہ۔

واضح رہے کہ مذکورہ عنوان مستقل نہیں بلکہ باب در باب کی قسم سے ہے کیونکہ اس سے پہلے عنوان تھا کہ بول وبراز کے راستے سے کسی چیز کا خارج ہونا ناقض وضوہے۔
یہ دونوں احادیث بھی اس عنوان کے ثبوت کے لیے تھیں لیکن ان احادیث سے ایک نیا فائدہ بھی معلوم ہو رہا تھا، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی آگاہی کے لیے ایک نیا عنوان قائم کر دیا کہ وضو کے سلسلے میں کسی دوسرے سے مدد لی جا سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 181   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.