الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
67. بَابُ : الاِخْتِلاَفِ عَلَى إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ
67. باب: اسماعیل بن ابی خالد پر راویوں کے اختلاف کا بیان۔
Chapter: The differences in the reports from Ismail bin Abi Khalid
حدیث نمبر: 1818
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا ابو قتيبة، قال: حدثنا محمد بن عبد الله الشعيثي، عن ابيه، عن عنبسة بن ابي سفيان، عن ام حبيبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من صلى اربعا قبل الظهر واربعا بعدها لم تمسه النار" , قال ابو عبد الرحمن: هذا خطا والصواب حديث مروان من حديث سعيد بن عبد العزيز.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ مَرْوَانَ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار پڑھیں، اسے آگ نہیں چھوئے گی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۱؎، صحیح مروان کی حدیث ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 201 (427)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 108 (1160)، (تحفة الأشراف: 15858)، مسند احمد 6/426 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اشارہ اس سے پہلے والی حدیث کی طرف ہے اس لیے بہتر یہ تھا کہ امام نسائی کا یہ قول حدیث رقم: ۱۸۱۷ کے بعد ذکر کیا جاتا، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ مراد عبداللہ شعیشی کے طریق سے وارد حدیث ہو ایسی صورت میں یہ کلام اپنے محل ہی میں ہو گا۔ ۲؎: یعنی حدیث رقم: ۱۸۱۶، جسے وہ سعید بن عبدالعزیز سے روایت کر رہے ہیں، اس میں عنبسہ بن ابی سفیان ہیں جب کہ اس میں محمد بن ابی سفیان ہیں جو غلط ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرى1813رملة بنت صخرمن ركع أربع ركعات قبل الظهر أربعا بعدها حرم الله لحمه على النار
   سنن النسائى الصغرى1815رملة بنت صخرمن صلى أربع ركعات قبل الظهر أربعا بعدها حرمه الله على النار
   سنن النسائى الصغرى1816رملة بنت صخرمن ركع أربع ركعات قبل الظهر أربعا بعدها حرمه الله على النار
   سنن النسائى الصغرى1817رملة بنت صخرمن حافظ على أربع ركعات قبل الظهر أربع بعدها حرمه الله على النار
   سنن النسائى الصغرى1818رملة بنت صخرمن صلى أربعا قبل الظهر أربعا بعدها لم تمسه النار
   جامع الترمذي427رملة بنت صخرمن صلى قبل الظهر أربعا بعدها أربعا حرمه الله على النار
   جامع الترمذي428رملة بنت صخرمن حافظ على أربع ركعات قبل الظهر أربع بعدها حرمه الله على النار
   سنن أبي داود1269رملة بنت صخرمن حافظ على أربع ركعات قبل الظهر أربع بعدها حرم على النار
   سنن ابن ماجه1160رملة بنت صخرمن صلى قبل الظهر أربعا بعدها أربعا حرمه الله على النار
   بلوغ المرام284رملة بنت صخر من صلى اثنتي عشرة ركعة في يومه وليلته بني له بهن بيت في الجنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1818  
´اسماعیل بن ابی خالد پر راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار پڑھیں، اسے آگ نہیں چھوئے گی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۱؎، صحیح مروان کی حدیث ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1818]
1818۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض محققین نے کہا ہے کہ یہ الفاظ حدیث نمبر 1817 کے بعد ہونے چاہیں، یعنی حدیث نمبر 1817 میں محمد بن ابوسفیان کا ذکر درست نہیں ہے، ان کے بجائے عنبسہ بن ابی سفیان درست ہے جیسا کہ مروان کی حدیث (نمبر 1815، 1816) میں ہے۔ اگر یہ الفاظ یہیں درست ہوں (یعنی حدیث نمبر 1818 کے بعد) تو، پھر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی مذکورہ سند (عبداللہ شعیثی عن عنبسہ) کے بجائے مروان والی حدیث کی سند (مکحول عن عنبسہ) ذکر ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
➋ امام نسائی رحمہ اللہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی مختلف (24) سندیں ذکر کی ہیں۔ بعض راویوں کی غلطیاں ظاہر کرنے کے لیے ان کو یہ طویل تکرار کرنی پڑی، مثلاً: بعض راویوں نے اسے بجائے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کر دیا، بعض نے حرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر دیا۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ یہ روایت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔ اسی طرح صحیح یہ ہے ککہ یہ روایت مرفوع ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ بعض راویوں نے اسے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا اپنا قول بیان کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی سندوں میں کچھ اختلافات ہیں جو تمام اسانید کو بغور دیکھنے سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں فائدہ حدیث نمبر 1780 مدنظر رکھا جائے تاکہ کچھ غلط فہمیوں سے بچاؤ ہو سکے۔
➌ سنن مؤکدہ کی پابندی کے ساتھ ادائیگی سے جنت کا دخول اولیں یا آگ کی حرمت مشروط ہے کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو، مثلاً: شرک۔ اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد بھی اتنی نیکیاں بچ جائیں جو اولیں طور پر جنت میں لے جائیں، نیز یہ ثواب اس کام کا انفرادی ثواب ہے، جب ساتھ گناہ بھی ہوں تو ظاہر ہے ان کی مقررہ سزا سے بھی مفر نہیں۔ مجموعی طور پر ثواب غالب آ جائے یا عذاب، یہ الگ باتہو گی۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ٰنے قسم کھا رکھی ہے کہ ضرور جہنم میں لے جائیں گے، لہٰذا آخری فیصلہ تمام نیکیوں اور برائیوں کی جزا و سزا کو ملانے ہی سے ہو گا، نیز کسی ایک حدیث کو باقی احادیث پر غالب نہیں کیا جا سکتا ببلکہ تمام احادیث کو ملا کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
➍ آخری احادیث میں صرف ظہر سے پہلے چار رکعات اور ظہر کے بعد چار رکعات ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ گویا یہ حدیث پہلی احادیث سے مختلف ہے جن میں بارہ رکعات کا ذکر ہے۔ بارہ رکعات سنن پڑھنے پر دخول جنت کی ضمانت دی گئی ہے اور ظہر کی نماز سے پہلے اور بعد چار رکعات پڑھنے پر آگ کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ دونوں الگ الگ معانی ہیں۔
➎ عشاء اور عصر کی نمازوں سے قبل چار، چار رکعات کا ذکر بھی بعض روایات میں ہے اور ان کی فضیلت بھی وارد ہے جبکہ عشاء سے قبل چار رکعات سنت کی روایت ضعیف ہے۔ عصر سے قبل چار رکعات کی ادائیگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا ہے۔ غرض یہ چار رکعات ضروری یا مؤکد نہیں صرف مستحب ہیں۔ واللہ أعلم۔
➏ امام نسائی رحمہ اللہ نے تو بارہ رکعات والی روایات ہی ذکر فرمائی ہیں۔ بعض روایات میں بارہ کے بجائے دس رکعات پر یہی ثواب بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ظہر سے پہلے چار کے بجائے دو رکعات کا ذکر ہے۔ گویا کبھی کبھار اگر دو ہی پر اکتفا کر لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں، مگر معمول چار رکعات ہی ہونا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1818   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1160  
´ظہر سے پہلے اور اس کے بعد چار چار رکعت سنت پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1160]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے دیکھئے: (حدیث: 1140، فائدہ: 2)
ظہر کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ (حدیث: 1140)
لیکن پہلے بھی چار اور بعد میں بھی چار رکعت پڑھنا افضل ہے۔

(2)
ظہر کے بعد کی رکعتوں میں سے دو سنت اور دو کو نفل قرار دینا درست نہیں۔
یہ چاروں سنتیں ہیں۔
جس طرح پہلی چاروں سنتیں ہیں۔
حالانکہ اسوقت بھی وہ پڑھی جا سکتی ہیں۔
لیکن اس کی وجہ سے ان میں سے دو کو نفل نہیں کہا جاتا۔

(3)
جہنم پر حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جنت میں چلا جائے گا۔
خواہ اس کے گناہ اللہ ویسے ہی معاف کرکے اسے جنت میں داخل کردے۔
یاتھوڑی سی سزادے کر پھر جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کرے۔

(4)
نیکیوں پر اللہ کی رحمت کی اُمید رکھنی چاہیے۔
لیکن اس کے عذاب سے بے خوف ہونا جائز نہیں کیونکہ بندے کو علم نہیں اس کا کونسا عمل قابل قبول ہے۔
اورکون سا نہیں اور قابل قبول اعمال میں سے بھی معلوم نہیں کس کا کتنا ثواب ملے گا۔
تھوڑا یا زیادہ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1160   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 284  
´نفل نماز کا بیان`
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ جو شخص شب و روز میں بارہ رکعت نوافل پڑھے اس کیلئے ان کے بدلہ میں جنت میں گھر تعمیر کر دیا گیا۔ (مسلم) اور ایک روایت میں «تطوعا» بھی ہے (نفل کے طور پر پڑھے) اور ترمذی کی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور اتنا اضافہ بھی ہے کہ چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت بعد میں اور دو رکعت نماز مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت صبح کی نماز سے پہلے۔ اور پانچواں یعنی احمد ‘ ابوداؤد ‘ ترمذی ‘ نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت کیا ہے کہ جس شخص نے ظہر کی پہلی چار رکعتوں کی حفاظت کی اور چار رکعت بعد میں باقاعدگی سے پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آتش جہنم پر حرام کر دیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 284»
تخریج:
«أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب فضل السنن الراتبة، قبل الفرائض وبعد هوهن، حديث: 728، وحديث: "أربعا قبل الظهر" أخرجه الترمذي، الصلاة، حديث:415 وهو حديث صحيح، وحديث"من حافظ علي أربع قبل الظهر" أخرجه أبوداود، التطوع، حديث:1269، والترمذي، الصلاة، حديث:427، والنسائي، قيام الليل، حديث:1817، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1160، وأحمد:6 /326 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شب و روز میں بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔
ان پر التزام کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اہتمام فرمایا ہے۔
2.ظہر کی فرض نماز کے بعد دو کی بھی گنجائش ہے اور چار کی بھی۔
چار کی فضیلت بڑی بیان ہوئی ہے۔
اور اگر کوئی چھ پڑھ لیتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔
راویٔ حدیث:
«ام سلمہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ ان کا نام رملہ تھا۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔
قدیم الاسلام تھیں اور ہجرت حبشہ کرنے والوں میں شامل تھیں۔
ان کا شوہر عبیداللہ بن جحش بھی ان کے ساتھ تھا مگر وہ وہاں جا کر عیسائی ہو گیا اور وہیں مر گیا۔
اس کے بعد ۷ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر کے اپنے حرم میں داخل فرما لیا۔
یہ نکاح کے وقت وہیں حبشہ ہی میں تھیں‘ پھر مہاجرین حبشہ کے ساتھ مدینہ تشریف لائیں۔
۴۲ یا ۴۴ یا ۵۰ ہجری میں فوت ہوئیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 284   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 427  
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔`
ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 427]
اردو حاشہ:
1؎:
اس قسم کی احادیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی موت اسلام پر آئے گی اور وہ کافروں کی طرح جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا،
یعنی اللہ تعالیٰ اس پر جہنم میں ہمیشہ رہنے کو حرام فرما دے گا،
اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی،
اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمیشگی کی آگ نہیں چھوئے گی،
مسلمان اگر گنہ گار اور سزا کا مستحق ہو تو بقدر جرم جہنم میں اس کا جانا ان احادیث کے منافی نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 427   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.