الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
24. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ
24. باب: مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 185
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، عن عبد الله بن مغفل، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بين كل اذانين صلاة لمن شاء ". وفي الباب عن عبد الله بن الزبير. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مغفل حسن صحيح، وقد اختلف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة قبل المغرب، فلم ير بعضهم الصلاة قبل المغرب، وقد روي عن غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، انهم كانوا يصلون قبل صلاة المغرب ركعتين بين الاذان والإقامة، وقال احمد , وإسحاق: إن صلاهما فحسن، وهذا عندهما على الاستحباب.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمُ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: إِنْ صَلَّاهُمَا فَحَسَنٌ، وَهَذَا عِنْدَهُمَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو نفلی نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان نماز ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی نماز کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے نماز نہیں، اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے،
۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے، اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 14 (624)، و16 (627)، صحیح مسلم/المسافرین 56 (838)، سنن ابی داود/ الصلاة 300 (1283)، سنن النسائی/الأذان 39 (682)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 110 (1162)، (تحفة الأشراف: 9658)، مسند احمد (4/86)، و (5/54، 56)، سنن الدارمی/الصلاة 145 (1480) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہو جائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اول وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخر نہیں ہوتی (صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے مغرب سے پہلے نماز پڑھو)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1162)

   صحيح البخاري627عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   صحيح البخاري624عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   صحيح مسلم1940عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   جامع الترمذي185عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن أبي داود1283عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن النسائى الصغرى682عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن ابن ماجه1162عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 682  
´اذان اور اقامت کے درمیان سنت (نفل نماز) پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، جو چاہے اس کے لیے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 682]
682 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ ہر اذان و اقامت کے درمیان نفل نماز کا وقفہ ہونا چاہیے۔ جو پڑھنا چاہے وہ کم از کم دو رکعت پڑھ لے اور یہ مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان بھی ہو گا۔
➋ مغرب سے قبل دو رکعتوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیبی حکم کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریر بھی اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے، کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عہد نبوت میں اس پر عمل پیرا تھے، نیز عہد نبوت کے بعد تابعین عظام کے ہاں بھی یہ عمل معمول بہ تھا اور تاحال حاملین کتاب و سنت کے ہاں بتوفیق اللہ بدستور جاری ہے جیسا کہ اس کی تفصیل کتاب المواقیت کے ابتدائیے میں بعنوان نماز مغرب سے قبل، اذان اور اقامت کے درمیان، دو رکعت نماز کا استحباب میں گزر چکی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
➌ جہاں مؤکدہ سنتیں ہیں وہاں تو وقفہ ہے ہی، باقی نمازوں میں بھی مستحب ہے۔ احناف مغرب کی نماز میں وقفے کے قائل نہیں کہ اس سے تاخیر ہو جائے گی، حالانکہ چند منٹ کے وقفے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا جب کہ احناف مغرب کی اذان بسا اوقات پانچ پانچ منٹ تاخیر سے کہتے ہیں، بالخصوص رمضان المبارک میں افطاری کے وقت بعض (بریلوی) حنفی مساجد میں صرف افطاری کے اعلان پر اکتفا کیا جاتا ہے، پھر پانچ سات منٹ بعد، حسب ضرورت کھا پی کر، اذان دی جاتی ہے جو کہ قطعاً سنت کے خلاف عمل ہے، اگر اس احتیاط سے نماز میں تاخیر نہیں ہوتی تو ہلکی سی مسنون دو رکعتوں سے کیسے تاخیر ہو گی۔ سنت پر عمل تو برکت و ثواب کا موجب ہے۔
➍ دو اذانوں سے مراد حقیقی اذانیں نہیں کیونکہ ان کے درمیان تو فرض نمازِ ہوتی ہے اور یہاں «لمن شاء» کے الفاظ ہیں کہ جو پڑھنا چاہے، گویا یہ فرض نماز نہیں، لہٰذا دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 682   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1162  
´مغرب سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: اس کے لیے جو چاہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعض اوقات اقامت کو بھی اذان کہہ دیا جاتا ہے۔
جمعے کی پہلی اذان کو اسی مفہوم میں تیسری اذان کہا گیا ہے۔
دیکھئے: (حدیث: 1135)
اس حدیث میں بھی اقامت کو اذان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہراذان کے بعد سنتیں پڑھی جایئں گی۔
جیسے ظہر، عصر، عشاء اور فجرسے پہلے اسی طرح مغرب کی اذان کے بعد مغرب کی اذان سے پہلے بھی سنتیں ہیں۔
اور وہ کتنی ہیں؟ صرف دوسنتیں۔
کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔
تاہم یہ غیر مؤکدہ ہیں۔
کیونکہ ان کو نبی کریمﷺ نے پڑھنے والے کی چاہت پر چھوڑ دیا ہے۔

(2)
یہ نماز اذان ختم ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
جیسے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کے لفظ سے ظاہر ہے۔

(3) (لمن شاء)
 سے ظاہر ہے کہ یہ سنت غیر مؤکدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1162   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 185  
´مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو نفلی نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 185]
اردو حاشہ:
1؎:
ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے،
یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،
اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں،
اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہو جائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے،
مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخرنہیں ہوتی۔
(صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے مغرب سے پہلے نماز پڑھو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 185   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1283  
´مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، اس شخص کے لیے جو چاہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1283]
1283۔ اردو حاشیہ:
دو اذانوں سے مراد معروف اذان اور اقامت ہے اور ان دونوں کے مابین جن نوافل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی و تاکید کی اور ترغیب دی ہے، انہیں سنن راتبہ (مؤکدہ) کہتے ہیں اور جن کی پابندی نہیں کی انہیں غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1283   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.