الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
53. بَابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِفْطَارِهِ:
53. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا بیان۔
(53) Chapter. What is said about the fasting and non-fasting (periods) of the Prophet ﷺ.
حدیث نمبر: 1973
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد هو ابن سلام، اخبرنا ابو خالد الاحمر، اخبرنا حميد، قال: سالت انسا رضي الله عنه، عن صيام النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما كنت احب ان اراه من الشهر صائما إلا رايته، ولا مفطرا إلا رايته، ولا من الليل قائما إلا رايته، ولا نائما إلا رايته، ولا مسست خزة ولا حريرة الين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شممت مسكة ولا عبيرة اطيب رائحة من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَرَاهُ مِنَ الشَّهْرِ صَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، وَلَا مُفْطِرًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، وَلَا مِنَ اللَّيْلِ قَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِيرَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا شَمِمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِيرَةً أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوخالد احمر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب بھی میرا دل چاہتا کہ آپ کو روزے سے دیکھوں تو میں آپ کو روزے سے ہی دیکھتا۔ اور بغیر روزے کے چاہتا تو بغیر روزے سے ہی دیکھتا۔ رات میں کھڑے (نماز پڑھتے) دیکھنا چاہتا تو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھتا۔ اور سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تو اسی طرح دیکھتا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے زیادہ نرم و نازک ریشم کے کپڑوں کو بھی نہیں دیکھا۔ اور نہ مشک و عنبر کو آپ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار پایا۔

Narrated Humaid: I asked Anas about the fasting of the Prophet. He said "Whenever I liked to see the Prophet fasting in any month, I could see that, and whenever I liked to see him not fasting, I could see that too, and if I liked to see him praying in any night, I could see that, and if I liked to see him sleeping, I could see that, too." Anas further said, "I never touched silk or velvet softer than the hand of Allah's Apostle and never smelled musk or perfumed smoke more pleasant than the smell of Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 194


   صحيح البخاري3561أنس بن مالكما مسست حريرا ولا ديباجا ألين من كف النبي ولا شممت ريحا قط أو عرفا قط أطيب من ريح أو عرف النبي
   صحيح البخاري1973أنس بن مالكما كنت أحب أن أراه من الشهر صائما إلا رأيته ولا مفطرا إلا رأيته ولا من الليل قائما إلا رأيته ولا نائما إلا رأيته ولا مسست خزة ولا حريرة ألين من كف رسول الله ولا شممت مسكة ولا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول الله
   صحيح مسلم6053أنس بن مالكما شممت عنبرا قط ولا مسكا ولا شيئا أطيب من ريح رسول الله ولا مسست شيئا قط ديباجا ولا حريرا ألين مسا من رسول الله
   جامع الترمذي2015أنس بن مالكأحسن الناس خلقا ولا مسست خزا قط ولا حريرا ولا شيئا كان ألين من كف رسول الله ولا شممت مسكا قط ولا عطرا كان أطيب من عرق رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1973  
1973. حضرت حمید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق دریافت کیا توانھوں نےفرمایا: جب میں چاہتا کہ کسی مہینے میں آپ کو بحالت روزہ دیکھوں تو آپ کو اسی حالت میں دیکھ لیتا، جب چاہتا کہ آپ کو افطار کی حالت میں دیکھوں تو اس حالت میں دیکھ لیتا۔ اسی طرح رات کو جب چاہتا آپ کو نماز میں کھڑے ہوئے اور جب چاہتا آپ کو سوئے ہوئے دیکھ لیتا۔ اور میں نے کوئی ریشم اور مخمل رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور نہ میں نے کوئی مشک اور عنبر رسول اللہ ﷺ کے پسینے کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار سونگھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1973]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کبھی اول رات میں عبادت کرتے، کبھی بیچ شب میں، کبھی آخر رات میں، اسی طرح آپ ﷺ کا آرام فرمانا بھی مختلف وقتوں میں ہوتا رہتا۔
اسی طرح آپ ﷺ کا نفل روزہ بھی تھا۔
شروع اور بیچ اور آخر مہینے میں ہر دنوں میں رکھتے۔
تو ہر شخص جو آپ کو روزہ دار یا رات کو عبادت کرتے یا سوتے دیکھنا چاہتا بلا دقت دیکھ لیتا۔
یہ سب کچھ امت کی تعلیم کے لیے تھا۔
تاکہ مسلمان ہر حال میں اپنے اللہ پاک کو یاد رکھیں۔
اور حقو ق اللہ اور حقوق العباد ہردو کی ادائیگی کو اپنے لیے لازم قرار دے لیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1973   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1973  
1973. حضرت حمید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق دریافت کیا توانھوں نےفرمایا: جب میں چاہتا کہ کسی مہینے میں آپ کو بحالت روزہ دیکھوں تو آپ کو اسی حالت میں دیکھ لیتا، جب چاہتا کہ آپ کو افطار کی حالت میں دیکھوں تو اس حالت میں دیکھ لیتا۔ اسی طرح رات کو جب چاہتا آپ کو نماز میں کھڑے ہوئے اور جب چاہتا آپ کو سوئے ہوئے دیکھ لیتا۔ اور میں نے کوئی ریشم اور مخمل رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور نہ میں نے کوئی مشک اور عنبر رسول اللہ ﷺ کے پسینے کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار سونگھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1973]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں امام بخاری ؒ نے شعبان کے روزوں کو مطلق بیان کیا اور اس عنوان میں روزہ اور حالت افطار کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا تاکہ اس سلسلے میں آپ کا اسوۂ حسنہ بیان کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ ہر اعتبار سے صفات میں اکمل تھے۔
آپ کبھی رات کے اول حصے میں، کبھی درمیان میں اور کبھی رات کے آخری حصے میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
آپ کے روزہ رکھنے کا بھی یہی عالم تھا، یعنی اگر کوئی آپ کو رات کے کسی حصے میں نماز پڑھتے دیکھنا چاہتا یا دن میں روزے کی حالت میں دیکھنا چاہتا تو وہ حسب خواہش آپ کو صائم یا قائم دیکھ لیتا تھا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پے در پے روزے رکھتے یا ساری ساری رات نماز پڑھتے رہتے تھے۔
اگرچہ آپ کو یہ قدرت حاصل تھی لیکن آپ سال بھر نہ تو روزے رکھتے اور نہ ساری ساری رات نماز ہی پڑھتے تھے تاکہ امت کو آپ کی اقتدا کرنے میں تکلیف نہ ہو۔
(2)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ساری رات نماز نہیں پڑھتے تھے، حالانکہ قبل ازیں سیدہ عائشہ ؓ سے مروی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جب کوئی کام شروع کرتے یا نماز پڑھنا شروع کرتے تو اس پر دوام کرتے تھے۔
اس سے مراد وہ عبارت ہے جو بطور وظیفہ شروع کرتے، اس پر ہمیشگی کرتے۔
اس سے مطلق نوافل مراد نہیں۔
(فتح الباري: 276/4)
واللہ أعلم۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے عبادت کرنے میں میانہ روی کو اختیار فرمایا، آپ روزہ رکھتے اور افطار بھی کرتے۔
نماز پڑھتے، آرام بھی فرما لیتے تاکہ عبادات میں لوگ آپ کی اقتدا کر سکیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1973   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.