الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
10. باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ
10. باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔
Chapter: The Abrogation Of Taking Back A Wife After The Third Divorce.
حدیث نمبر: 2199
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن مروان، حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن غير واحد، عن طاوس، ان رجلا يقال له: ابو الصهباء، كان كثير السؤال لابن عباس، قال:" اما علمت ان الرجل كان إذا طلق امراته ثلاثا قبل ان يدخل بها، جعلوها واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و ابي بكر وصدرا من إمارة عمر؟" قال ابن عباس:" بلى، كان الرجل إذا طلق امراته ثلاثا قبل ان يدخل بها، جعلوها واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و ابي بكر وصدرا من إمارة عمر، فلما راى الناس قد تتابعوا فيها، قال: اجيزوهن عليهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: أَبُو الصَّهْبَاءِ، كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا، قَالَ: أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5763) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس سند میں غیر واحد مبہم رواة ہیں، مگر اس میں «غیرمدخول بہا» کا لفظ ہی منکر ہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں)

وضاحت:
۱؎: مگر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے۔

Tawus said A man called Abu Al Sahba used to ask Ibn Abbas questions frequently. He asked “Do you know that when a man divorced his wife by three pronouncement before sexual intercourse with her, they (the people) made it a single divorce during the time of the Messenger of Allah ﷺ, of Abu Bakr and in the early phase of the caliphate of Umar?” Ibn “Abbas said “Yes, when a man divorced his wife by three pronouncement before sexual intercourse they made it a single divorce during the time of the Messenger of Allah ﷺ, of Abu Bakr and in the early phase of the caliphate of Umar. When he saw that the people frequently divorced (by three pronouncements) he said “Make them operative on them (i. e., on women)”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2193


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
”غير واحد“ لم أعرفھم،و موقوف ابن عباس يؤيد ھذا الحديث،انظر نيل المقصود (2197) وتلخيصه لمزيدالتحقيق
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83

   صحيح مسلم3675عبد الله بن عباسألم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله وأبي بكر واحدة فقال قد كان ذلك فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق فأجازه عليهم
   صحيح مسلم3673عبد الله بن عباسكان الطلاق على عهد رسول الله وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم
   صحيح مسلم3674عبد الله بن عباسكانت الثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر فقال ابن عباس نعم
   سنن أبي داود2199عبد الله بن عباسطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدة على عهد رسول الله و أبي بكر وصدرا من إمارة عمر فلما رأى الناس قد تتابعوا فيها قال أجيزوهن عليهم
   سنن أبي داود2200عبد الله بن عباسالثلاث تجعل واحدة على عهد النبي و أبي بكر وثلاثا من إمارة عمر قال ابن عباس نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2199  
´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2199]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں (قبل ان يدخل بها) قبل ازمباشرت کا اضافہ منکر ہے۔
تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ ج؛11343) صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ انتہائی صریح اور صاف ہیں (كان الطلاق علي عهد رسول الله ﷺوابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب:ان الناس قداستعجلو في امر قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه عليهم فامضاه عليهم) (صحيح مسلم الطلاق حديث:١٤٧٤) رسول الله ﷺ کے زمانے میں عہد ابی بکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیںصایک ہی ہوا کرتی تھی تو عمر بن خطاب نے کہا:لوگ اس معاملہ (طلاق) میں جس میں انہیں مہلت حاصل تھی جلدی کرنے لگے ہیں۔
اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی) نافذ کردیں (تو بہتر رہے) چنانچہ انہوں نے اس کو نافذ کردیا۔
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کی کوئی قید نہیں۔
یہ نص ناقابل انکار ہے انتہائی محکم اور ثابت ہے منسوخ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کےبعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں اسی عمل ہوتا رہا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت اس کے بالمقابل کسی نص سے نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ قبل از نفاذ انہیں تردد واضطراب رہا تھا۔
اور مصر اور شام وغیرہ میں جب اس حکم کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے تو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیا ہےتو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیاہے۔
کاش کہ یہ لوگ اپنی عبادات ومعاملات میں سنت کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔
(ملحوظہ) مترجم عرض کرتا ہے برصغیر میں بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ اپنی ذاتی مصالح کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں نہ کہ اتباع سنت کی غرض سے۔
فإلی الله المشتكی
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2199   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.