الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
27. باب بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ:
27. باب: علم کے باوجود اپنے باپ کے سوا اور کسی کا بیٹا کہلانے والے کے ایمان کا حال۔
Chapter: Clarifying the condition of the fath of one who knowingly denies his father
حدیث نمبر: 220
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يحيي بن زكرياء بن ابي زائدة ، وابو معاوية ، عن عاصم ، عن ابي عثمان ، عن سعد وابى بكرة كلاهما، يقول: سمعته اذناي، ووعاه قلبي محمدا صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ادعى إلى غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَعْدٍ وأبى بكرة كلاهما، يَقُولُ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ".
عاصم نے ابو عثمان سے اور انہوں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ دونوں کہتے تھے: یہ بات میرے دونوں کانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی (اورمیرے دل نے یاد رکھی) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جس نے اپنے والد کے سوا کسی اور کو والد بنانے کا دعویٰ کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، تو اس پر جنت حرام ہے۔
حضرت سعد ؓ اور ابو بکرہ ؓ دونوں نے کہا: یہ بات میرے دونوں کانوں نے سنی اور میرے دل نے یاد رکھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بارے میں باپ ہونے کا دعویٰ کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے، ایسے انسان کے لیے جنّت حرام ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 63

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (216)» ‏‏‏‏

   صحيح البخاري4327من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام
   صحيح البخاري6766من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام
   صحيح مسلم220من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام
   سنن ابن ماجه2610من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4327  
´باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا کبیرہ گناہ ہے`
«. . . سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ . . .»
. . . ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4327]

لغوی توضیح:
«وَعَــاهُ» اسے یاد کر لیا۔
«قَلْبـِيْ» میرے دل نے۔
فہم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اور اگر کوئی کسی دوسرے ملک میں نیشنیلٹی حاصل کرنے کی غرض سے بھی ایسا کرتا ہے (جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے) تو وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کو بھی اپنے ناموں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے اصلی باپوں کے ناموں سے ہی پکارنا چاہیے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ «ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ» [الاحزاب: 5] لے پالکوں کو ان کے (اصلی) باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک پورا انصاف ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 42   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2610  
´کسی اور کو باپ بتانے اور کسی اور کو مولیٰ بنانے کی برائی کا بیان۔`
سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا، اور میرے دل نے یاد رکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کی طرف منسوب کرے، جب کہ وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2610]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نسبت کے ثبوت پربہت معاملات کاا انحصار ہےمثلاً:

(ا)
محرم نامحرم کی پہچان۔

(ب)
وارثت کی تقسیم وغیرہ اس لیے شریعت اسلامیہ میں نسب کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔

(2)
آزاد کرنے اور ہونے والے کے درمیان جو تعلق قائم ہوتا ہے اسےولاء کہتے ہیں اس پر بعض شریعی مسائل کا انحصار ہے مثلاً:
نسبی وارثوں کی غیر موجوگی میں وراثت کی تقسم وغیرہ۔

(3)
نسب اور ولاء کا جو تعلق قدرتی طور پرقائم ہو گیا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اس لیے شریعت میں منہ بولے بیٹے یا بھائی وغیرہ جیسے مصنوعی رشتوں کی قانونی اورشریعی حیثیت نہیں۔

(4)
باپ کےسوا کسی اور کو والد قراردینا حرام ہے البتہ احترام کے طورپرکسی کوچچا کہہ دینا پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا اس میں شامل نہیں۔
حرمت اس وقت ہےجب اس مصنوعی رشتوں کو اصلی رشتے کا مقام دینے کی کوشش کی جائے۔

(5)
آزاد غلام کے لیے جائز نہیں کہ کسی اور قبیلے سے تعلق قائم کرنے کےلیے اس قبیلے کے کسی فرد کو اپنا آزاد کرنے والا قرار دے۔
اس کی وجہ سے بعض شرعی معاملات میں مشکل پیش آ سکتی ہےاس کے علاوہ یہ ایک بڑی احسان فراموشی بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2610   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.