الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شفعہ کے بیان میں
The Book of Pre- Emption
2. بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ الْبَيْعِ:
2. باب: شفعہ کا حق رکھنے والے کے سامنے بیچنے سے پہلے شفعہ پیش کرنا۔
(2) Chapter. The partner should inform his partner, who has the right of pre-emption, of his intention to sell his share before selling it.
حدیث نمبر: Q2258
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال الحكم: إذا اذن له قبل البيع فلا شفعة له، وقال الشعبي: من بيعت شفعته وهو شاهد لا يغيرها فلا شفعة له.وَقَالَ الْحَكَمُ: إِذَا أَذِنَ لَهُ قَبْلَ الْبَيْعِ فَلَا شُفْعَةَ لَهُ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: مَنْ بِيعَتْ شُفْعَتُهُ وَهْوَ شَاهِدٌ لَا يُغَيِّرُهَا فَلَا شُفْعَةَ لَهُ.
‏‏‏‏ حکم نے کہا کہ اگر بیچنے سے پہلے شفعہ کا حق رکھنے والے نے بیچنے کی اجازت دی تو پھر اس کا حق شفعہ ختم ہو جاتا ہے۔ شعبی نے کہا کہ حق شفعہ رکھنے والے کے سامنے جب مال بیچا گیا اور اس نے اس بیع پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس کا حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔

حدیث نمبر: 2258
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، اخبرنا ابن جريج، اخبرني إبراهيم بن ميسرة، عن عمرو بن الشريد، قال:" وقفت على سعد بن ابي وقاص، فجاء المسور بن مخرمة فوضع يده على إحدى منكبي، إذ جاء ابو رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا سعد ابتع مني بيتي في دارك، فقال سعد: والله ما ابتاعهما، فقال المسور: والله لتبتاعنهما، فقال سعد: والله لا ازيدك على اربعة آلاف منجمة او مقطعة، قال ابو رافع: لقد اعطيت بها خمس مائة دينار، ولولا اني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" الجار احق بسقبه ما اعطيتكها باربعة آلاف، وانا اعطى بها خمس مائة دينار، فاعطاها إياه".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، قَالَ:" وَقَفْتُ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَجَاءَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى إِحْدَى مَنْكِبَيَّ، إِذْ جَاءَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا سَعْدُ ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا، فَقَالَ الْمِسْوَرُ: وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلَافٍ مُنَجَّمَةً أَوْ مُقَطَّعَةً، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلَافٍ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو ابراہیم بن میسرہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن شرید نے، کہا کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ میرے شانے پر رکھا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور فرمایا کہ اے سعد! تمہارے قبیلہ میں جو میرے دو گھر ہیں، انہیں تم خرید لو۔ سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ بخدا میں تو انہیں نہیں خریدوں گا۔ اس پر مسور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں جی تمہیں خریدنا ہو گا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میں چار ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ اور وہ بھی قسط وار۔ ابورافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔ تو میں ان گھروں کو چار ہزار پر تمہیں ہرگز نہ دیتا۔ جب کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گھر ابورافع رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو دے دئیے۔

Narrated `Amr bin Ash-Sharid: While I was standing with Sa`d bin Abi Waqqas, Al-Miswar bin Makhrama came and put his hand on my shoulder. Meanwhile Abu Rafi`, the freed slave of the Prophet came and asked Sa`d to buy from him the (two) dwellings which were in his house. Sa`d said, "By Allah I will not buy them." Al- Miswar said, "By Allah, you shall buy them." Sa`d replied, "By Allah, I will not pay more than four thousand (Dirhams) by installments." Abu Rafi` said, "I have been offered five hundred Dinars (for it) and had I not heard the Prophet saying, 'The neighbor has more right than anyone else because of his nearness, I would not give them to you for four-thousand (Dirhams) while I am offered five-hundred Dinars (one Dinar equals ten Dirhams) for them." So, he sold it to Sa`d.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 35, Number 459


   صحيح البخاري6980أسلمالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاري6978أسلمالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاري6977أسلمالجار أحق بصقبه ما بعتكه أو قال ما أعطيتكه
   صحيح البخاري6981أسلمالجار أحق بصقبه
   صحيح البخاري2258أسلمالجار أحق بسقبه ما أعطيتكها بأربعة آلاف وأنا أعطى بها خمس مائة دينار فأعطاها إياه
   سنن أبي داود3516أسلمالجار أحق بسقبه
   سنن النسائى الصغرى4706أسلمالجار أحق بسقبه
   سنن ابن ماجه2495أسلمالجار أحق بسقبه
   سنن ابن ماجه2498أسلمالشريك أحق بسقبه ما كان
   بلوغ المرام761أسلم الجار أحق بصقبه
   مسندالحميدي562أسلمالجار أحق بسقبه ما بعتك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2258  
2258. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہپڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2258]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث بظاہر حنفیہ کی دلیل ہے کہ ہمسایہ کو شفع کا حق ہے۔
شافعیہ اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ مراد وہی ہمسایہ ہے جو جائیداد مبیعہ میں بھی شریک ہوتا کہ حدیثوں میں اختلاف باقی نہ رہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2258   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2258  
2258. حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہپڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2258]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اثبات شفعہ کے اسباب بتائے تھے اور اس عنوان میں اسقاط شفعہ کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ایک شریک دوسرے پر شفعہ پیش کرے اور وہ نہ لے تو ایسا کرنے سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
لیکن کچھ فقہاء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ شفعہ تو ابھی واجب ہی نہیں ہوا۔
وہ بیع کے بعد واجب ہوتا ہے،اس لیے بیع سے پہلے یا بیع کے وقت اس کا جازت دینا کارگر نہیں ہوگا۔
لیکن یہ موقف صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
شریک کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دیے بغیر اسے فروخت کردے اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔
(مسند أحمد: 316/3)
جب اطلاع دینے کے بعد شریک نے اسے نہیں رکھا تو حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا۔
اسی طرح جب شفعہ کرنے والے نے مشتری سے مشفوعہ خرید لیا ہویا خریداری کےلیے بات چیت کرے یا اس سے کرائے پر حاصل کرے یا وہ اپنا حصہ جس کے ذریعے سے شفعے کا حق پیدا ہوا تھا فروخت کردے یا وقف کردے تو ان تمام صورتوں میں حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمسائے کےلیے بھی حق شفعہ ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے محلے میں حضرت ابو رافع ؓ کے دومکان تھے۔
ظاہر ہے کہ حضرت سعد ؓ ان میں شریک نہ تھے کیونکہ عمر بن شبہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد ؓ کے بلاط میں دومکان تھے ان کے درمیان دس گز کا فاصلہ تھا اور ان میں جو مسجد کے دائیں جانب تھا وہ حضرت ابو رافع کا مکان تھا جس کو حضرت سعد ؓ نے ان سے خریدا تھا۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ ابو رافع ؓ سے مکان خریدنے سے پہلے ان کے ہمسائے تھے، ان کے شریک نہ تھے۔
(فتح الباري: 552/4،553)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابو رافع کا ذاتی عمل ہے۔
ممکن ہے کہ انھوں نے بطور نیکی اپنا مکان پڑوسی کو دے دیا ہو۔
لیکن اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ محض ہمسائیگی کے ذریعے سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دارہے۔
شفعے کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔
(مسند أحمد: 303/3)
صحیح بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جداجدا ہوجائیں تو پھر شفعے کا حق نہیں رہتا۔
(3)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں امام شافعی سے اختلاف کیا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ اس ہمسائے کو حق شفعہ ملتا ہے جو جائیداد میں شریک ہو دوسرے کے لیے نہیں لیکن اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی تائید ہوتی ہے۔
(4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒ حضرت امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2258   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.