الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
Fasting (Kitab Al-Siyam)
8. باب فِي التَّقَدُّمِ
8. باب: رمضان کے استقبال کا بیان۔
Chapter: Regarding Preceding (Ramadan By Fasting At The End Of Sha’ban).
حدیث نمبر: 2328
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت، عن مطرف، عن عمران بن حصين، وسعيد الجريري، عن ابي العلاء، عن مطرف، عن عمران بن حصين، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل:" هل صمت من شهر شعبان شيئا؟" قال: لا، قال:" فإذا افطرت فصم يوما"، وقال احدهما:" يومين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَسَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:" هَلْ صُمْتَ مِنْ شَهْرِ شَعْبَانَ شَيْئًا؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمًا"، وَقَالَ أَحَدُهُمَا:" يَوْمَيْنِ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: دو روزے رکھ لیا کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 62(1983تعلیقًا)، صحیح مسلم/الصوم 37 (1161)، (عندالجمیع: ’’من سرر شعبان‘‘)، (تحفة الأشراف: 10844، 10855)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/432، 434، 442، 443، 446)، سنن الدارمی/الصوم 35 (1183) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں «شهر» (مہینہ) کی بجائے «سرر» (آخر ماہ) کا لفظ ہے، بلکہ خود مؤلف کے بعض نسخوں میں بھی یہی لفظ ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: اس آدمی کی عادت تھی کہ ہر مہینہ کے اخیر میں روزہ رکھا کرتا تھا، مگر رمضان سے ایک دو دن برائے استقبال رمضان روزہ کی ممانعت سن کر اس نے اپنے معمول والا یہ روزہ نہیں رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ایسا فرمایا، یعنی: رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کا اگر کسی کا معمول ہو تو وہ رکھ سکتا ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معمول کی عبادت اگر کسی سبب سے چھوٹ جائے تو اس کی قضا کر لینی چاہئے۔

Narrated Imran bin Husain: The Messenger of Allah ﷺ asked a man: Did you fast the last day of Sha'ban ? He replied: No. He said: If you did not observe a fast, you must fast for a day. One of the two narrators said: For two days.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2321


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1983) صحيح مسلم (1161)

   صحيح البخاري1983عمران بن الحصينصمت سرر هذا الشهر قال الرجل لا قال فإذا أفطرت فصم يومين
   صحيح مسلم2752عمران بن الحصينهل صمت من سرر هذا الشهر شيئا قال لا قال رسول الله فإذا أفطرت من رمضان فصم يومين مكانه
   صحيح مسلم2753عمران بن الحصينهل صمت من سرر هذا الشهر شيئا قال لا قال فقال له إذا أفطرت رمضان فصم يوما
   صحيح مسلم2745عمران بن الحصينأصمت من سرة هذا الشهر قال لا قال فإذا أفطرت فصم يومين
   صحيح مسلم2751عمران بن الحصينأصمت من سرر شعبان قال لا قال فإذا أفطرت فصم يومين
   سنن أبي داود2328عمران بن الحصينصمت من شهر شعبان شيئا قال لا قال فإذا أفطرت فصم يوما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2328  
´رمضان کے استقبال کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: دو روزے رکھ لیا کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2328]
فوائد ومسائل:
(1) یہ حدیث بظاہر گزشتہ حدیث سے متعارض ہے جس میں ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ایک دو دن کے روزے مت رکھو۔
مگر ان میں جمع کی صورت یہ ہے کہ یہ رخصت اور تاکید اس شخص کے لیے ہے جس نے کسی روزے کی نذر مانی ہو یا وہ پہلے سے خاص دن کے روزے رکھنے کا عادی ہو تو اسے چاہیے کہ حسب معمول اپنے روزے رکھے۔
مگر کوئی سابقہ عادت یا نذر کے بغیر بطور نفل کے استقبالی روزہ رکھنا چاہیے تو اجازت نہیں ہے۔

(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو رمضان کے بعد ایک یا دو روزے رکھنے کی تاکید فرمائی، وہ شخص مہینے کے آخر میں روزے رکھا کرتا تھا، لیکن اس نے شعبان کے آخر میں اس لیے روزے چھوڑ دیے تھے کہ کہیں استقبالِ رمضان کے ذیل میں نہ آ جائیں جو ممنوع ہیں۔

(3) لفظ (سَرَر) کے مختلف معانی مندرجہ ذیل روایت کے بعد مذکور ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2328   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.