الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
31. باب مِنْهُ
31. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2342
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن مطرف، عن ابيه، انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " الهاكم التكاثر سورة التكاثر آية 1 , قال: يقول ابن آدم: مالي مالي، وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فامضيت او اكلت فافنيت، او لبست فابليت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1 , قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التكاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کر دیا اور اسے آگے چلا دیا ۱؎، اور کھایا اور اسے ختم کر دیا یا پہنا اور اسے پرانا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2959)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3643)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ”التکاثر“ (3349) (تحفة الأشراف: 5346)، و مسند احمد (4/24، 26) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کر دیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کر دیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کر دیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح مسلم7422عبد الله بن الشخيريقول ابن آدم مالي مالي قال وهل لك يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت أو تصدقت فأمضيت
   جامع الترمذي2342عبد الله بن الشخيريقول ابن آدم مالي مالي وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فأمضيت أو أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت
   جامع الترمذي3354عبد الله بن الشخيريقول ابن آدم مالي مالي وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فأمضيت أو أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت
   سنن النسائى الصغرى3643عبد الله بن الشخيريقول ابن آدم مالي مالي وإنما مالك ما أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت أو تصدقت فأمضيت
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2342 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2342  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنامال سمجھتاہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطراس نے صدقہ کردیا،
اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے،
باقی مال کھا پی کراسے ختم کردیا یا پہن کراسے بوسیدا اورپرانا کردیا،
صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا،
اس حدیث میں مستحقین پراوراللہ کی پسندیدہ راہوں پرخرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2342   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3354  
´سورۃ اتکاثر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت «ألهاكم التكاثر» زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا (التکاثر: ۱)، تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: ابن آدم میرا مال، میرا مال کہے جاتا ہے (اسی ہوس و فکر میں مرا جاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کر دیا یا پہن کر بوسیدہ کر دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3354]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا (التکاثر: 1)

2؎:
یعنی:
ابن آدم کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے راہ خدا میں خرچ کیا،
یا خود کھایا پیا اور پہن کر بوسیدہ کر دیا،
اور باقی جانے والا مال تو اس کا اپنا مال نہیں بلکہ اس کے وارثین کا مال ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3354   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7422  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ کہتا ہے میرا مال،میرا مال اس لیے تو اس کے مال سے صر ف تین چیزیں ہیں۔جو اس نے کھایا اور فنا کردیا،جو پہنا اور بوسیدہ کردیا،یاجو کسی کو دےکر آخرت کے لیے)ذخیرہ کرلیا۔اس کے سوا جو کچھ بھی ہے تو وہ(بندہ جانے والا اور اس (مال) کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7422]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اقتني:
جمع کرلیا،
ذخیرہ بنالیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
حدیث میں مذکور تین مدوں کے سوا جو مال وہ جمع کرتا ہے،
وہ در حقیقت اس کا نہیں ہے،
بلکہ ان وارثوں کا ہے جن کے لیے وہ اس کو چھوڑجانے والا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7422   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.