الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: ہبہ کے احکام و مسائل
The Chapters on Gifts
2. بَابُ : مَنْ أَعْطَى وَلَدَهُ ثُمَّ رَجَعَ فِيهِ
2. باب: اپنی اولاد کو کچھ دے کر واپس لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2377
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، وابو بكر بن خلاد الباهلي ، قالا: حدثنا ابن ابي عدي ، عن حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، وابن عمر ، يرفعان الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل للرجل ان يعطي العطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ ، يرفعان الحديث إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ".
عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کسی کو عطیہ دے کر واپس لے سوائے باپ کے جو اپنی اولاد کو دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 83 (3539)، سنن الترمذی/البیوع 62 (1299)، الولاء البراء 7 (2132، 2131)، سنن النسائی/الھبة 2 (3720)، (تحفة الأشراف: 5743، 7097)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/27، 78) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   جامع الترمذي1299لا يحل لأحد أن يعطي عطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده
   جامع الترمذي2132لا يحل للرجل أن يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه
   سنن أبي داود3539لا يحل لرجل أن يعطي عطية أو يهب هبة فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب يأكل فإذا شبع قاء ثم عاد في قيئه
   سنن ابن ماجه2377لا يحل للرجل أن يعطي العطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده
   سنن النسائى الصغرى3720لا يحل لرجل يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي عطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3733لا يحل لأحد أن يعطي العطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية فيرجع فيها كالكلب يأكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه
   بلوغ المرام790 لا يحل لرجل مسلم أن يعطي العطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 790  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلم مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے بجز والد کے کہ وہ اپنی اولاد کو دئیے گئے عطیہ کو واپس لے سکتا ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کی ہے اور ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 790»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب الرجوع في الهبة، حديث:3539، والترمذي، البيوع، حديث:1298، والنسائي، الهبة، حديث:3720، وابن ماجه، الهبات، حديث:2377، وأحمد:1 /237، وابن حبان (الإحسان):7 /289، حديث:5101، والحاكم:2 /46 وصححه، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
1. عطیات دینا اسلامی معاشرے میں محبت و مودت کی علامت ہے۔
2. عطیات و تحائف آپس میں دینے چاہئیں۔
3. تحفہ دے کر واپس لینا والد کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں۔
جمہور کا مذہب تو یہی ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذوی الارحام کے سوا کسی سے بھی واپس لینا جائز ہے‘ مگر یہ اور سابقہ حدیث دونوں ان کے موقف کی صریحا ً تردید کرتی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 790   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3539  
´ہبہ کر کے واپس لے لینا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ دے، یا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور پھر اسے واپس لوٹا لے، سوائے والد کے کہ وہ بیٹے کو دے کر اس سے لے سکتا ہے ۱؎، اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر (یا ہبہ کر کے) واپس لے لیتا ہے کتے کی مثال ہے، کتا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، پھر قے کرتا ہے، اور اپنے قے کئے ہوئے کو دوبارہ کھا لیتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3539]
فوائد ومسائل:
فائدہ: صحیح بخاری میں روایت ہے کہ (ليس لنا السوء) (صیح البخاري، الھبة، و فضلھا و التحریض علیھا، حدیث: 2622) گندی مثال ہمارے لئے نہیں۔
یعنی کسی صاحب ایمان کےلئے اس طرح کا ہونا قطعاً ٹھیک نہیں۔
تاہم باپ بیٹے کا رشتہ ایک خصوصیت رکھتا ہے۔
اس بنا پر صرف باپ کو اس کی اجازت دی گئی کہ وہ بیٹے کو ہدیہ دے کر واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔
علاوہ ازیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بیٹے کے مال پر باپ کا استحقاق بھی اس طرح ہے کہ گویا وہی اس کا مالک ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3539   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.