الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
36. باب مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ:
36. باب: کس شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 2404
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن حماد بن زيد ، قال يحيى: اخبرنا حماد بن زيد، عن هارون بن رياب ، حدثني كنانة بن نعيم العدوي ، عن قبيصة بن مخارق الهلالي ، قال: تحملت حمالة فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله فيها، فقال: " اقم حتى تاتينا الصدقة، فنامر لك بها "، قال: ثم قال يا قبيصة: إن المسالة لا تحل إلا لاحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسالة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل اصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش، او قال: سدادا من عيش، ورجل اصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد اصابت فلانا فاقة فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش، او قال: سدادا من عيش، فما سواهن من المسالة يا قبيصة سحتا، ياكلها صاحبها سحتا ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ ، حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ: " أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا "، قَالَ: ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا، يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا ".
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے (لوگوں کے معاملات میں اصلاح کے لئے) ادائیگی کی ایک ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپ سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آجائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔"پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے قبیصہ!تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لئے سوال کرناجائز نہیں: ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرلی، اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کرلے، اس کے بعد (سوال سے) رک جائے، دوسرا وہ آدمی جس پر کوئی آفت آپڑی ہو جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لئے سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی گزران درست کرلے۔یا فرمایا: زندگی کی بقا کاسامان کرلے۔اور تیسرا وہ آدمی جو فاقے کا شکار ہوگیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد کھڑے ہوجائیں (اور کہہ دیں) کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہوگیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا حلال ہوگیا یہاں تک کہ وہ درست گزران حاصل کرلے۔۔۔یا فرمایا: زندگی باقی رکھنے جتنا حاصل کرلے۔۔۔اے قبیصہ!ان صورتوں کے سوا سوال کرناحرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔"
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں نے ایک بہت بڑے تاوان یا کسی کے قرض کی ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے قبیصہ! سوال تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے کسی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی، تو اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا جائز ہے کہ وہ رقم پوری ہو جائے (اسے مل جائے) پھر وہ سوال سے باز آ جائے۔ اوردوسرا وہ آدمی جو کسی آفت کا شکار ہوا جس نے اس کا مال تباہ کرڈالا، اس کے لئے سوال کرنا جائز ہے حتی اسے ا سقدر مل جائے جس سے اس کی گزران درست ہو جائے یا اس کی گزران صحیح ہو جائےاور تیسرا وہ آدمی جو فاقے سے دو چار ہو گیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد گواہی دیں کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہو گیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا جائز ہے حتی کہ اس کی درست گزران پا لے۔۔ یا ا س کی گزران صحیح ہو جائے، ان صورتوں کے سوا سوال کرنا اے قبیصہ! حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1044

   سنن النسائى الصغرى2580قبيصة بن المخارقالمسألة لا تحل إلا لثلاثة رجل تحمل بحمالة بين قوم فسأل فيها حتى يؤديها ثم يمسك
   سنن النسائى الصغرى2581قبيصة بن المخارقالصدقة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو سدادا من عيش رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته فاقة حتى يشهد ثلاثة من ذوي الحجا من قومه قد أصابت فلانا فاقة فحلت له المس
   سنن النسائى الصغرى2592قبيصة بن المخارقلا تصلح المسألة إلا لثلاثة
   صحيح مسلم2404قبيصة بن المخارقالمسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له
   سنن أبي داود1640قبيصة بن المخارقالمسألة لا تحل إلا لأحد ثلاث رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة فسأل حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة فسأل حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجى من قومه قد أصابت فلانا الف
   المعجم الصغير للطبراني407قبيصة بن المخارقالمسألة لا تحل إلا لإحدى ثلاث رجل تحمل حمالة عن قومه أراد بها الإصلاح فسأل فإذا بلغ أو كرب أمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت فأجاحت ماله فسأل حتى يصيب سدادا من عيش رجل أصابته فاقة فمشى معه ثلاثة من ذوي الحجا من قومه فيقولون إن فلانا قد أصابته فاقة فيس
   بلوغ المرام522قبيصة بن المخارق‏‏‏‏إن المسالة لا تحل إلا لاحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة،‏‏‏‏ فحلت له المسالة حتى يصيبها
   مسندالحميدي838قبيصة بن المخارقنؤديها أو نخرجها عنك إذا قدمت نعم للصدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 522  
´صدقات کی تقسیم کا بیان`
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لیے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کا قرض وغیرہ ادا ہو جائے پھر وہ سوال کرنے سے باز آ جائے اور دوسرا وہ جو کسی ناگہانی مصیبت میں پھنس گیا ہو اور اس کا مال تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ اسے گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے۔ تیسرا وہ شخص جسے فاقے آ رہے ہوں اور اس کی قوم کے تین صاحب عقل آدمی اس کی شہادت دیں کہ واقعی اسے فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ اسے بھی گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے اور ان کے علاوہ اے قبیصہ! سوال حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان) [بلوغ المرام/حدیث: 522]
لغوی تشریح 522:
ثَلَاثَۃٍ اس پر تنوین ہے۔ رَجُلٍ ثلاثۃ سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور ہے، یا پھر مرفوع ہے۔ اس صورت میں أَحَدُھُمْ مبتدا محذوف ہو گا۔
تَحَمَّلَ ذمہ اٹھایا، کفالت کی۔ حَمَالَۃً حا پر فتحہ اور میم مخفف ہے، وہ مال جو انسان دوسرے کیطرف سے ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، مثلاً: دوسرے کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے یا کسی کی دیت ادا کرنے کی حامی بھرتا ہے یا فریقین کے مابین تنازع کو دور کرنے کے لیے رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا ہو تو دوسروں سے تعاون کی اپیل کر سکتا ہے اور زکاۃ لے سکتا ہے۔ ٘ ثُّمَّ یُمسِکُ أمساک سے ماخوذ ہے۔ اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد فوراً دستِ سوال دراز کرنے سے رک جائے۔
جَائِحَۃٌ آسمانی یا زمینی آفت، مثلًا: نہایت ٹھنڈی ہوا چلنے سے، آگ لگنے سے یا سیلاب کی وجہ سے فصل تباہ ہو جائے۔
أِجتَاحَت ہلاک کر دے۔
قِوَامًا قاف کے نیچے کسرہ ہے، یعنی وہ چیز جس سے کوئی شخص اپنی حاجت و ضرورت کا انتظام کرتا ہے اور اپنی خستہ حالی کا سدباب کرتا ہے۔
أَلحِجٰی حا کے نیچے کسرہ ہے اور آخر میں الفِ مقصورہ ہے، یعنی عقل۔
سُحْتٌ سین پر ضمہ اور حا ساکن ہے۔ حرام۔
یَسحَۃُ البَرکَۃَ کے معنی ہیں: جو برکت کو لے اُڑے۔

فوائد و مسائل 522:
اس حدیث میں سوال کرنے والے کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک ضابطہ بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی برادری یا قوم کے تین سرکردہ صاحبِ عقل ودانش آدمی اس کی حالت، کسمپرسی اور فاقہ کشی کی شہادے دیں تو اسے سوال کرنے کی اجازت ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے اور اس میں سائلین کی حالت کو جانچنے اور تحقیق کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام نے گداگری کی کس طرح حوصلہ شکنی کی ہے اور محنت و مزدوری کی ترغیب دی ہے۔
راوئ حدیث:
حضرت قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوبشر کنیت ہے۔ قبیصہ میں قاف پر فتحہ اور با کے نیچے کسرہ ہے۔ اور مخارق میں میم پر ضمہ ہے۔ سلسلۂ نصب یوں ہے: قبیصہ بن مخارق بن عبداللہ بن شداد العامری الھلالی۔ شرفِ صحابیت سے مشرف تھے۔ بصرہ میں رہائش پذیر ہوے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنیں۔ چھ احادیث کے راوی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 522   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1640  
´کن صورتوں میں سوال (مانگنا) جائز ہے؟`
قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں، پھر فرمایا: قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1640]
1640. اردو حاشیہ: اس حدیث میں صرف تین قسم کےآدمیوں کو سوال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اور انہیں صدقہ لینا حلال ہے۔ان میں سے ایک غنی اور دو فقیر ہیں۔ پھر فقیر ہونے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا مخفی غنی انسان اس وقت مانگ سکتا ہے۔ جب وہ کسی کا ضامن بن جائے۔اور اس کی توضیح یہ ہے کہ کسی قوم میں یا بعض افراد میں کوئی جان یا مال کی بنا ء پر عداوت پیدا ہوجائے۔اور ان کی صلح نہ ہورہی ہو۔بلکہ مذید حالات بگڑنے اور پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو۔ تو کوئی بھلا انسان ان میں صلح کی پیش کش کردے۔اورقرض یا دیت وغیرہ کی ادایئگی کا ضامن بن جائے تاکہ ان مسلما نوں کی آپس میں صُلح ہوجائے۔ اور پھوٹ نہ پڑے تو ایسے غنی کو دوسرے لوگوں سے تعاون لینے اورسوال کرنے کی اجازت ہے۔اورعام لوگوں کو بھی چاہیے کہ صدقات سے اس کے ساتھ تعاون کریں۔(یہ وہی صورت ہے جو حدیث 1635 کے فائدے میں غارم کی تشریح کرتے ہوئے بیان کی گئی ہے۔) دوسری قسم کاوہ آدمی جس کا مال کسی عام ظاہری آفت سے مثلا ً سیلاب آجانے سے آگ لگ جانے سے سمندر میں غرق ہوجانے سے یا زلزلہ وغیرہ سے ہلاک ہوجائے۔اور عام لوگوں کے علم میں ہو تو ایسے شخص سے دلیل اور گواہ طلب کرنےکی ضرورت نہیں بلکہ ایسے ویسے تعاون دیا جائے اور اس پرصدقات خرچ ہوسکتے ہیں۔تیسری قسم کا وہ شخص ہے۔جو بظاہر مالدار اورغنی ہونے کی شہرت رکھتا ہو۔ مگراندر خانے کسی خسارے۔گھاٹے۔چوری۔دھوکہ۔ اور خیانت ہوجانے کا اس طرح شکار ہوجائے۔ کہ فاقوں تک نوبت آگئی ہو تو ایسے شخص کےلئے اس کی قوم کے تین سمجھدارافراد گواہی دیں۔ تو اس سے سوال کرناجائز ہے۔ اور اس سے تعاون کرناضروری ہے۔ اور اس کو صدقات دینے بھی جائز ہیں۔ حتیٰ کہ وہ گزران حاصل کرلے۔ علاوہ ازیں سوال کرنا حرام اور صدقہ دینا ناجائز ہے۔ تعمیر مساجد۔دینی مدارس۔جہاد اور دیگر رفاہی کام جو مسلمان معاشرے کی اہم ملی ضرورت ہیں۔اور حکومت ان کی زمہ داری نہیں اُٹھاتی یا بہت کم تعاون کرتی ہے۔تو کوئی ایک یا زیادہ افراد باوجود غنی ہونے کے لوگوں سے تعاون حاصل کرکے یہ لوازمات معاشرہ کو مہیا کریں۔ تو ان کےلئے بھی جائز ہے کہ وہ مذکورہ امور کےلئے لوگوں سے سوال کریں۔اور دوسروں پر بھی لازم ہے کہ ایسے امور میں ان سے تعاون کریں۔بشر ط یہ کہ یہ لوگ اپنا بااعتماد ہونا ثابت رکھیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1640   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2404  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً:
میں نے کسی امر خیر کے لیے دوسروں کی طرف سے بہت بڑی رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی۔
(2)
أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ:
وہ کسی قدرتی آفت کا شکار ہوا جس سے اس کی پیداوار غلہ پھل یا مال کا نقصان ہوا۔
(3)
اجْتَاحَتْ مَالَهُ:
سارا مال تباہ و برباد کر ڈالا،
اس کا کچھ نہ چھوڑا۔
(4)
قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ یا سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ:
جس سے اس کا گزارہ ہونے لگا،
جس سے اس کی ضرورت پوری ہو گئی،
وہ مانگنے کا محتاج نہ رہا۔
(5)
الحجا:
عقل و دانش۔
(6)
سُحْت:
حرام۔
فوائد ومسائل:
اسلام کا عام ضابطہ واصول یہ ہے کہ مانگنا جائز نہیں ہے ہاں اگر انسان کے پاس سوال کے سوا کوئی چارا نہ رہے کیونکہ اس نے دین یا اہل دین کی خاطر کوئی بہت بڑا جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو۔
یا وہ کسی قدرتی آفت اور مصیبت کا شکار ہو گیا ہے جس سے اس کا تمام مال تباہ ہو گیا ہے اور اس کے پاس گزارہ کے لیے کچھ نہیں بچا یا وہ افلاس و ناداری کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہے تو ان صورتوں میں اپنی ضرورت و حاجت کے پوری ہونے تک وہ مانگ سکتا ہے اس کے بعد سوال کرنا جائز نہیں ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اسلام میں پیشہ ورانہ گدا گری کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن افسوس جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی ہے اس کی امت میں پیشہ ورسائلوں اور گداگروں کا ایک طبقہ موجود ہے اور اس کے لیے مختلف مصنوعی سوانگ بھرے جاتے ہیں اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو عالم یا پیربن کر معزز قسم کی گداگر کرتے ہیں یہ لوگ سوالی اور گداگری کے علاوہ فریب دہی اور دین فروشی کے بھی مجرم ہیں مساجد و مدارس کے نام سے چندہ لیں یا دینی اجتماعات (عید میلادالنبی اور عرس وغیرہ)
محافل کے نام سے غنڈہ گردی کر کے جبری چندہ وصول کریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2404   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.