الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
11. بَابُ إِذَا حَلَّلَهُ مِنْ ظُلْمِهِ فَلاَ رُجُوعَ فِيهِ:
11. باب: جب کسی ظلم کو معاف کر دیا تو پھر واپسی کا مطالبہ باقی نہیں رہتا۔
(11) Chapter. If the oppressed person forgives the oppressor, he has no right to back out ( of his forgiveness).
حدیث نمبر: 2450
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها في هذه الآية وإن امراة خافت من بعلها نشوزا او إعراضا سورة النساء آية 128، قالت:" الرجل تكون عنده المراة ليس بمستكثر منها يريد ان يفارقها، فتقول: اجعلك من شاني في حل"، فنزلت هذه الآية في ذلك.(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128، قَالَتْ:" الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ لَيْسَ بِمُسْتَكْثِرٍ مِنْهَا يُرِيدُ أَنْ يُفَارِقَهَا، فَتَقُولُ: أَجْعَلُكَ مِنْ شَأْنِي فِي حِلٍّ"، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے (قرآن مجید کی آیت) «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏» اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت یا اس کے منہ پھیرنے کا خوف رکھتی ہو کے بارے میں فرمایا کہ کسی شخص کی بیوی ہے لیکن شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں بلکہ اسے جدا کرنا چاہتا ہے اس پر اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنا حق تمہیں معاف کرتی ہوں۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Narrated Aisha: Regarding the explanation of the following verse:-- "If a wife fears Cruelty or desertion On her husband's part." (4.128) A man may dislike his wife and intend to divorce her, so she says to him, "I give up my rights, so do not divorce me." The above verse was revealed concerning such a case.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 630



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2450  
2450. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت اگر عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے پروائی یاروگردانی کرنے کا اندیشہ ہو کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس ایک بیوی ہوتی ہے جس سے وہ زیادہ تعلق نہیں رکھنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے چھوڑ دے تو ایسی حالت میں عورت اسے کہے کہ میں تجھے اپنے خاص معاملات میں بری الذمہ قرار دیتی ہوں۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2450]
حدیث حاشیہ:
یعنی اگر شوہر میرے پاس نہیں آتا تو نہ آ، لیکن مجھ کو طلاق نہ دے، اپنی زوجیت میں رہنے دے تو یہ درست ہے۔
خاوند پر سے اس کی صحبت کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں۔
حضرت علی ؓ نے کہا یہ آیت اس باب میں ہے کہ عورت اپنے مرد سے جدا ہونا برا سمجھے۔
اور خاوند بیوی دونوں یہ ٹھہرا لیں کہ تیسرے یا چوتھے دن مرد اپنی عورت کے پاس آیا کرے تو یہ درست ہے۔
حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری آنحضرت ﷺ کو معاف کر دی تھی، آپ ان کی باری میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس رہا کرتے تھے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2450   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2450  
2450. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت اگر عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے پروائی یاروگردانی کرنے کا اندیشہ ہو کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس ایک بیوی ہوتی ہے جس سے وہ زیادہ تعلق نہیں رکھنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے چھوڑ دے تو ایسی حالت میں عورت اسے کہے کہ میں تجھے اپنے خاص معاملات میں بری الذمہ قرار دیتی ہوں۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2450]
حدیث حاشیہ:
عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مظلوم جب ظالم کی زیادتی معاف کر دے تو پھر وہ دوبارہ بدلے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
آیت کریمہ میں متوقع زیادتی کی معافی کا ذکر ہے اس لیے اگر متوقع زیادتی معاف کی جا سکتی ہے تو جو زیادتی اور ظلم ہو چکا ہو اسے معاف کرنا بالاولیٰ جائز ہو گا۔
حضرت سودہ ؓ جب بوڑھی ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے اپنا حق چھوڑنے پر صلح کر لی کہ میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کرتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرما لیا اور انہیں طلاق نہ دی۔
بہرحال اپنا ظلم معاف کرنے کے بعد دوبارہ بدلے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، آیت کریمہ میں اس کا واضح اشارہ ملتا ہے۔
(فتح الباري: 127/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2450   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.