الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
6. بَابُ : مَانِعِ زَكَاةِ الإِبِلِ
6. باب: اونٹ کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔
Chapter: The One Who Withholds The Zakah Of Camels
حدیث نمبر: 2450
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثنا شعيب، قال: حدثني ابو الزناد، مما حدثه عبد الرحمن الاعرج مما ذكر , انه سمع ابا هريرة يحدث به، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تاتي الإبل على ربها على خير ما كانت، إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه باخفافها، وتاتي الغنم على ربها على خير ما كانت، إذا لم يعط فيها حقها، تطؤه باظلافها وتنطحه بقرونها، قال: ومن حقها ان تحلب على الماء الا لا ياتين احدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء، فيقول: يا محمد , فاقول: لا املك لك شيئا قد بلغت الا لا ياتين احدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها يعار، فيقول: يا محمد , فاقول: لا املك لك شيئا قد بلغت، قال: ويكون كنز احدهم يوم القيامة شجاعا اقرع يفر منه صاحبه، ويطلبه انا كنزك فلا يزال حتى يلقمه اصبعه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا هِيَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا، تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، قَالَ: وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ , فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ , فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ، قَالَ: وَيَكُونُ كَنْزُ أَحَدِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَفِرُّ مِنْهُ صَاحِبُهُ، وَيَطْلُبُهُ أَنَا كَنْزُكَ فَلَا يَزَالُ حَتَّى يُلْقِمَهُ أُصْبُعَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا حق یہ بھی ہے کہ انہیں اسی جگہ دوہا جائے جہاں انہیں پانی پلانے کا نظم ہو ۱؎، سن لو، قیامت کے دن تم میں کا کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر لادے ہوئے نہ لائے وہ بلبلا رہا ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (بچائیے مجھ کو اس عذاب سے) کہ میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے بتا چکا تھا، سن لو! قیامت کے دن کوئی اپنی گردن پر بکری کو لادے ہوئے نہ آئے کہ وہ ممیا رہی ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (مجھے اس عذاب سے بچائیے) کہ اس وقت میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا خزانہ ۲؎ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر سامنے آئے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا برابر پیچھا کرتا رہے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس کی انگلی کو اپنے منہ میں داخل کر لے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة3 (1402)، الجھاد189 (2378)، تفسیربراء ة6 (3073)، الحیل3 (6958)، (تحفة الأشراف: 13736)، مسند احمد (2/316، 379، 426) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: بکریوں کو گھاٹوں پر دوہا جائے تاکہ وہاں موجود مساکین کو بھی اس میں سے کچھ دیا جائے، نہ کہ بند گھروں میں مساکین سے بچنے کے لیے دوہا جائے۔ ۲؎: جس کی وہ زکاۃ نہیں ادا کرتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري4565عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   صحيح البخاري4659عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع
   صحيح البخاري2378عبد الرحمن بن صخرمن حق الإبل أن تحلب على الماء
   صحيح البخاري6957عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه فيطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه وقال رسول الله إذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة فتخبط وجهه بأخفافها
   صحيح البخاري1403عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا ولا يحسبن الذين يبخلون
   صحيح البخاري1402عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت إذا هو لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها وقال ومن حقها أن تحلب على الماء قال ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها
   صحيح مسلم2290عبد الرحمن بن صخرما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل يا
   صحيح مسلم2292عبد الرحمن بن صخرما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته إلا أحمي عليه في نار جهنم فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت
   سنن أبي داود1658عبد الرحمن بن صخرما من صاحب كنز لا يؤدي حقه إلا جعله الله يوم القيامة يحمى عليها في نار جهنم فتكوى بها جبهته وجنبه وظهره حتى يقضي الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة مما تعدون ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب غنم لا يؤدي حقها إلا جاءت
   سنن النسائى الصغرى2450عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل على ربها على خير ما كانت إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على ربها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها قال ومن حقها أن تحلب على الماء ألا لا يأتين أحدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء في
   سنن النسائى الصغرى2484عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمتيه يوم القيامة فيقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   سنن النسائى الصغرى2444عبد الرحمن بن صخرأيما رجل كانت له إبل لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها قالوا يا رسول الله ما نجدتها ورسلها قال في عسرها ويسرها فإنها تأتي يوم القيامة كأغذ ما كانت وأسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه بأخفافها إذا جاءت أخراها أعيدت عليه أولاها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة
   سنن ابن ماجه1786عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل التي لم تعط الحق منها تطأ صاحبها بأخفافها وتأتي البقر والغنم تطأ صاحبها بأظلافها وتنطحه بقرونها ويأتي الكنز شجاعا أقرع فيلقى صاحبه يوم القيامة يفر منه صاحبه مرتين ثم يستقبله فيفر فيقول ما لي ولك فيقول أنا كنزك أنا كنزك فيتقيه بيده فيلقمها
   صحيفة همام بن منبه72عبد الرحمن بن صخرإذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة تخبط وجهه بأخفافها
   صحيفة همام بن منبه73عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه ويطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه
   مسندالحميدي1095عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2450  
´اونٹ کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2450]
اردو حاشہ:
(1) یہ حق بھی ہے۔ اور یہ حق زکاۃ کے علاوہ ہے۔ یہ اگرچہ واجب تو نہیں مگر اس کی ادائیگی بھی اہم ہے۔ قیامت کے دن عذاب تو زکاۃ نہ دینے ہی پر ہوگا، مگر اس قسم کے حقوق کو ادا نہ کرنا بھی مروت اور انسانیت کے خلاف ہے جو دنیا میں قابل مذمت ہے، خصوصاً اگر کوئی فقیر اس قدر بھوکا ہو کہ یہ دودھ اس کی مجبوری ہو تو پھر اس کی جان بچانا فرض ہے۔ ایسے موقع پر یہ حق بھی فرض بن جائے گا۔
(2) خزانہ جس کی زکاۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ اگر زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ خزانہ رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ دوسرے ضروری حقوق بھی پورے کیے جائیں، مثلاً: والدین سے حسن سلوک، مہمان کی خدمت، فقیر کی حاجت برآری وغیرہ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ روز مرہ کی ضروریات سے زائد جمع شدہ بھی کنز ہی ہے جس کے بارے میں مذکورہ بالا وعید نازل ہوئی ہے۔ ان کا اس سلسلے میں تشدد، نصوص اور صحابہ کے اجماعی طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا، البتہ اسے ورع اور اولیٰ ہونے پر محمول کیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2450   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔

(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔

(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1786   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658  
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1658   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.