الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
4. بَابُ إِذَا شَهِدَ شَاهِدٌ أَوْ شُهُودٌ بِشَيْءٍ فَقَالَ آخَرُونَ مَا عَلِمْنَا ذَلِكَ. يُحْكَمُ بِقَوْلِ مَنْ شَهِدَ:
4. باب: جب ایک یا کئی گواہ کسی معاملے کے اثبات میں گواہی دیں اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہو گا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے۔
(4) Chapter. When a witness or witnesses give an evidence.
حدیث نمبر: Q2640-2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال آخرون: ما علمنا ذلك يحكم بقول من شهد.وَقَالَ آخَرُونَ: مَا عَلِمْنَا ذَلِكَ يُحْكَمُ بِقَوْلِ مَنْ شَهِدَ.
اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہو گا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے۔

حدیث نمبر: Q2640
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال الحميدي: هذا كما اخبر بلال، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى في الكعبة، وقال الفضل: لم يصل، فاخذ الناس بشهادة بلال، كذلك إن شهد شاهدان ان لفلان على فلان الف درهم، وشهد آخران بالف وخمس مائة يقضى بالزيادة.قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: هَذَا كَمَا أَخْبَرَ بِلَالٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْكَعْبَةِ، وَقَالَ الْفَضْلُ: لَمْ يُصَلِّ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِشَهَادَةِ بِلَالٍ، كَذَلِكَ إِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ أَنَّ لِفُلَانٍ عَلَى فُلَانٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَشَهِدَ آخَرَانِ بِأَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ يُقْضَى بِالزِّيَادَةِ.
حمیدی نے کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے بلال رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے اور فضل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کعبہ کے اندر) نماز نہیں پڑھی۔ تو تمام لوگوں نے بلال رضی اللہ عنہ کی گواہی کو تسلیم کر لیا۔ اسی طرح اگر دو گواہوں نے اس کی گواہی دی کہ فلاں شخص کے فلاں پر ایک ہزار درہم ہیں اور دوسرے دو گواہوں نے گواہی دی کے ڈیڑھ ہزار درہم ہیں تو فیصلہ زیادہ کی گواہی دینے والوں کے قول کے مطابق ہو گا۔

حدیث نمبر: 2640
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حبان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا عمر بن سعيد بن ابي حسين، قال: اخبرني عبد الله بن ابي مليكة، عن عقبة بن الحارث، انه تزوج ابنة لابي إهاب بن عزيز، فاتته امراة، فقالت: قد ارضعت عقبة والتي تزوج، فقال لها عقبة: ما اعلم انك ارضعتني ولا اخبرتني، فارسل إلى آل ابي إهاب يسالهم، فقالوا: ما علمنا ارضعت صاحبتنا، فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فساله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف وقد قيل ففارقها ونكحت زوجا غيره".(مرفوع) حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ يَسْأَلُهُمْ، فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا أَرْضَعَتْ صَاحِبَتَنَا، فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ فَفَارَقَهَا وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ".
ہم سے حبان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آل ابواہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھے۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب کیا ہو سکتا ہے جب کہ کہا جا چکا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں جدائی کرا دی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرا دیا۔

Narrated `Abdullah bin Abu Mulaika from `Uqba bin Al-Harith: `Uqba married the daughter of Abu Ihab bin `Aziz, and then a woman came and said, "I suckled `Uqba and his wife." `Uqba said to her, "I do not know that you have suckled me, and you did not inform me." He then sent someone to the house of Abu Ihab to inquire about that but they did not know that she had suckled their daughter. Then `Uqba went to the Prophet in Medina and asked him about it. The Prophet said to him, "How (can you keep your wife) after it has been said (that both of you were suckled by the same woman)?" So, he divorced her and she was married to another (husband).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 808


   صحيح البخاري88عقبة بن الحارثكيف وقد قيل ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره
   صحيح البخاري2640عقبة بن الحارثتزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتته امرأة فقالت قد أرضعت عقبة والتي تزوج فقال لها عقبة ما أعلم أنك أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب يسألهم فقالوا ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي بالمدينة فسأله فقال رسول الله كيف وقد قيل ففارقها ونكحت زوجا غير
   صحيح البخاري2659عقبة بن الحارثتزوج أم يحيى بنت أبي إهاب قال فجاءت أمة سوداء فقالت قد أرضعتكما فذكرت ذلك للنبي فأعرض عني قال فتنحيت فذكرت ذلك له قال وكيف وقد زعمت أن قد أرضعتكما فنهاه عنها
   صحيح البخاري2660عقبة بن الحارثتزوجت امرأة فجاءت امرأة فقالت إني قد أرضعتكما فأتيت النبي فقال وكيف وقد قيل دعها عنك
   صحيح البخاري5104عقبة بن الحارثزعمت أنها قد أرضعتكما دعها عنك
   صحيح البخاري2052عقبة بن الحارثامرأة سوداء جاءت فزعمت أنها أرضعتهما فذكر للنبي فأعرض عنه وتبسم النبي قال كيف وقد قيل
   جامع الترمذي1151عقبة بن الحارثكيف بها وقد زعمت أنها قد أرضعتكما دعها عنك
   سنن أبي داود3603عقبة بن الحارثما يدريك وقد قالت ما قالت دعها عنك
   سنن النسائى الصغرى3332عقبة بن الحارثكيف بها وقد زعمت أنها قد أرضعتكما دعها عنك
   بلوغ المرام973عقبة بن الحارثكيف وقد قيل ؟ ‏‏‏‏ ففارقها عقبة فنكحت زوجا غيره
   مسندالحميدي590عقبة بن الحارثكيف وقد قيل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 88  
´جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي . . .»
. . . عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 88]

تشریح:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑ دیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جو سفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2640  
2640. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2640]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ عقبہ اور اس کی اہلیہ کے عزیز کا بیان نفی میں تھا اور دودھ پلانے والی عورت کا بیان اثبات میں تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اسی عورت کی گواہی قبول فرمائی۔
معلوم ہوا کہ گواہی میں اثبات نفی پر مقدم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2640   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 973  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 973»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب شهادة المرضعة، حديث:5104.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسروعہ‘ (سین کے نیچے کسرہ‘ را ساکن اور واؤ پر فتحہ ہے۔
)
عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف مکی۔
مشہور صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔
پچاس ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔
وضاحت: «ام یحییٰ» ان کا نام غَنِیَّہ ہے۔
(غین پر فتحہ نون کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدیدہے۔
)
غنیہ بنت ابی اہاب بن عویر تمیمی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام زینب تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 973   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1151  
´رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1151   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3603  
´رضاعت (دودھ پلانے) کی گواہی کا بیان۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3603]
فوائد ومسائل:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔
جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔
تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔
علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔
گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔
اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3603   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2640  
2640. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2640]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق دودھ پلانے والی عورت نے رضاعت کو ثابت کیا، لیکن حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی بیوی کے اہل خانہ نے اس کی نفی کی۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس جب معاملہ گیا تو آپ نے اس عورت کی بات کا اعتبار کیا اور حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو بیوی سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔
(2)
یہ حکم وجوب کے لیے تھا یا احتیاط اور تقویٰ کے اعتبار سے، بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کی گواہی قبول فرمائی۔
معلوم ہوا کہ گواہی کے موقع پر اثبات نفی پر مقدم ہے۔
(3)
دودھ کے متعلق دیگر مسائل و احکام ہم آئندہ کتاب النکاح میں بیان کریں گے، نیز معلوم ہوا کہ جہاں حلت و حرمت کا مسئلہ ہو وہاں احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہ چیز اختیار کی جائے جو شک و شبہ سے بالا ہو اور جو چیز شک پیدا کرتی ہو اسے ترک کر دیا جائے۔
مذکورہ واقعہ میں احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت عقبہ بن حارث ؓ اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2640   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.