الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
26. بَابُ كَيْفَ يُسْتَحْلَفُ:
26. باب: کیوں کر قسم لی جائے۔
(26) Chapter. How (and with what) to swear?
حدیث نمبر: 2679
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، قال: ذكر نافع، عن عبد الله رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"من كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، قَالَ: ذَكَرَ نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی قسم کھائے، ورنہ خاموش رہے۔

Narrated `Abdullah: The Prophet said, "Whoever has to take an oath should swear by Allah or remain silent." (i.e. He should not swear by other than Allah.)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 844


   صحيح البخاري7401عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم من كان حالفا فليحلف بالله
   صحيح البخاري2679عبد الله بن عمرمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت
   صحيح البخاري6647عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري3836عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6108عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6646عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6648عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4257عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4259عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4254عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   جامع الترمذي1535عبد الله بن عمرحلف بغير الله فقد كفر أو أشرك
   جامع الترمذي1534عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   جامع الترمذي1533عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن أبي داود3249عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن أبي داود3251عبد الله بن عمرمن حلف بغير الله فقد أشرك
   سنن النسائى الصغرى3795عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3797عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3796عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3799عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3798عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن ابن ماجه2101عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم من حلف بالله فليصدق ومن حلف له بالله فليرض ومن لم يرض بالله فليس من الله
   سنن ابن ماجه2094عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم543عبد الله بن عمرإن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت
   بلوغ المرام1171عبد الله بن عمر ألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت
   مسندالحميدي637عبد الله بن عمر ألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   مسندالحميدي703عبد الله بن عمرألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3251  
´غیر اللہ کی قسم کھانا شرک`
«. . . إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 3251]

فوائد و مسائل
SR سوال: بعض لوگ اپنی گفتگو میں اولاد، اولیاء اور نیک بندوں کی قسم کھاتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ER
جواب: اسلامی تعلیمات میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے روکا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کو کفر و شرک قرار دیا ہے۔
❀ سعد بن عبداللہ فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو قسم کھاتے ہوئے سنا، اس نے کہا: کعبہ کی قسم! تو اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: «من حلف بغير الله فقد كفر او اشرك» جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3251، ترمذي: 1535]
❀ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک قافلے میں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، ‏‏‏‏‏‏فمن كان حالفا، ‏‏‏‏‏‏فليحلف بالله او ليسكت» بیشک اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جو شخص قسم کھانا چاہے اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3249، بخاري: 6646، مسلم: فواد عبدالباقي ترقيم1646، دارالسلام ترقيم4257]
↰ مذکورہ بالا حدیث صحیحہ سے معلوم ہو ا کہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام و شرک ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، جو لوگ اپنی گفتگو میں دودھ پتر کی قسم، پیر کی قسم، مرشد کی قسم، سید کی قسم، ماں باپ کی قسم، محبت کی قسم وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں انہیں اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا احادیث پر سنجیدگی و متانت سے غور و حوض کرنا چاہیے اور ناجائز و حرام قسموں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 543  
´غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے`
«. . . 218- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدرك عمر بن الخطاب وهو يسير فى ركب وهو يحلف بأبيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک قافلے میں سفر کرتے ہوئے اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے والدین کی قسمیں کھانے سے منع کرتا ہے لہٰذا جو شخص قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 543]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6646، من حديث مالك به، ورواه مسلم 3/1646، من حديث نافع به]
تفقه:
➊ غیر اللہ کی قسم کھانا ممنوع اور حرام ہے۔
➋ اگر کسی سے لاعلمی میں کتاب وسنت کی مخالفت میں کوئی کام سرزد ہوجائے تو وہ معذور سمجھا جائے گا تاوقتیکہ اسے علم ہوجائے لیکن اگر کوئی ممانعت ثابت ہونے کے باوجود باطل تاویل کے ساتھ دلیل کی مخالفت پر اڑا رہے تو مجرم ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے تو پھر میں نے کبھی ایسی قسم نہیں کھائی، نہ خود اور نہ کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے۔ [صحيح بخاري: 6647، صحيح مسلم: 1646، ترقيم دارالسلام: 4254]
معلوم ہوا کہ اتباعِ سنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اعلیٰ مقام پر تھے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے، «وأفلح وأبيه» اس کا مطلب یہ ہے کہ اور وہ کامیاب ہوگیا، اس کے باپ (کے رب) کی قسم! یہاں «وأبيه» سے مراد «ورب أبيه» ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 218   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2094  
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اہل عرب کی عادت تھی کہ باپ کی قسم کھا لیا کرتے تھے، اس لیے نبی ﷺ نے منع فرمایا دیا۔

(2)
  اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں، خواہ باپ کی ہو یا دادا کی، یا استاد کی یا پیر کی یا بزرگ کی یا کسی ولی کی یا نبی کی جیسے بعض لوگ حضرت علی کی یا پنجتن پاک کی قسم کھا لیتے ہیں۔
یہ سب حرام ہیں۔

(3)
  نقل کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کی بات کرتے ہوئے کہا جائے کہ فلاں نے کہا:
قسم ہے پیرودستگیر کی! میں سچ کہہ رہا ہوں۔
حضرت عمر نے حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ کسی کی بات بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا:
فلاں کہہ رہا تھا:
قسم ہے لات وعزی کی! (4)
  نامناسب الفاظ کو زبان سے نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کسی کی بات سنانے کی ضرورت پڑ جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لات وعزی کی قسم کھا کر یوں کہا:
جیسے ہم کسی کی گالی نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں:
فلاں نے ماں کی گالی دی، گالی کے الفاظ نہیں دہراتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2094   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1171  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کارواں میں اپنے باپ کی قسم اٹھاتے سنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا اللہ نے تمہیں تمہارے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ پس اب جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے نام کی قسم کھانی چاہیئے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد اور نسائی کی ایک مرفوع روایت میں ہے اپنے باپ دادوں، اپنی ماؤں اور اللہ کے شریکوں کی قسم نہ کھاؤ۔ اللہ کی قسم بھی صرف اس حالت میں کھاؤ کہ جب تم سچے ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1171»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث:6108، ومسلم، الأيمان، باب النهي عن الحلف بغير الله تعالي، حديث:1646، وحديث أبي هريرة: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3249، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3797، 3798، وسنده صحيح.»
تشریح:
1. یہ حدیث دلیل ہے کہ غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا حرام ہے۔
جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
(جامع الترمذي‘ النذور والأیمان‘ حدیث:۱۵۳۵) امام ابوداود رحمہ اللہ نے یہی روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے: جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔
(سنن أبي داود‘ الأیمان والنذور‘ حدیث:۳۲۵۱) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے نام کی قسم کھانا اس کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور عظمت فی الحقیقت صرف اللہ کے لیے ہے۔
2. قدیم ترین زمانے سے لوگوں کا یہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ جس کے نام کی قسم کھائی جائے اس کا قسم کھانے والے پر غلبہ ہوتا ہے اور وہ مافوق الاسباب بھی نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتا ہے‘ چنانچہ جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری کرتا ہے تو جس کی قسم کھائی گئی ہوتی ہے وہ خوش ہوتا اور اسے نفع دیتا ہے، اور جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا اور اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
بلاشبہ ایسا عقیدہ غیراللہ کے بارے میں رکھنا کھلا شرک و کفر ہے اور غیر اللہ کے نام کی قسم اور غیراللہ کے نام کی نذر شرک ہی کی ایک صورت ہے‘ لہٰذا جب کوئی اس اعتقاد کے ساتھ قسم کھائے تو اس نے حقیقت میں شرک کا ارتکاب کیا، اور جب قسم کھائے اور یہ اعتقاد و نظریہ نہ ہو تو پھر اس نے کم از کم شرک کی ایک ظاہری صورت کا ارتکاب ضرور کر لیا ہے۔
3. شریعت نے شرک کی ظاہری صورتوں سے بھی اسی طرح منع کیا ہے جیسے حقیقی شرک سے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3251  
´باپ دادا کی قسم کھانا منع ہے۔`
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3251]
فوائد ومسائل:

غیر اللہ کی قسم کھانا۔
خواہ وہ کعبہ کی ہو یا فرشتے یا نبیاء یا اولیاء صالحین یا آبائواجداد وغیر کی۔
اسے گویا اللہ کے ہم پلہ ٹھرانا ہے۔
یا اس کی سی صفات سے موصوف سمجھنا ہے۔
جو کہ واضح شرک ہے۔
جس سے ایسا ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدید کرلے۔
اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔
جیسے کہ (حدیث 3247)میں گزرا ہے۔

خیال رہے کہ قرآن مجید کی قسم کھانا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
تاہم اگر کوئی اٹھا لے تو مباح اور جائز ہے۔
اس لئے کہ قرآن مجید اللہ ذو الجلال کا کلا م اور اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کی قسم کھانا ثابت اور صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3251   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2679  
2679. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص قسم اٹھائے تو صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2679]
حدیث حاشیہ:
اس میں اشارہ ہے کہ عدالت میں قسم وہی معتبر ہوگی جو اللہ کے نام پر کھائی جائے۔
غیراللہ کی قسم ناقابل اعتبار بلکہ گناہ ہوگی۔
دوسری روایت میں ہے جس نے غیراللہ کی قسم کھائی، اس نے شرک کیا۔
پس قسم سچی کھانی چاہئے اور وہ صرف اللہ کے نام پاک کی قسم ہو ورنہ خاموش رہنا بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2679   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2679  
2679. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص قسم اٹھائے تو صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2679]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ قسم اٹھانے میں شدت اختیار کرنا واجب نہیں۔
ان احادیث میں صرف ''باللہ'' پر اکتفا کیا گیا ہے۔
کچھ ائمہ کا موقف ہے کہ اگر قاضی اسے مہتم کرے تو اپنی قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے مزید الفاظ بڑھائے جا سکتے ہیں۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق صرف اللہ کے نام اور اس کی صفات پر اکتفا کیا جائے۔
اللہ کے نام کے سوا کسی دوسری چیز کی قسم اٹھانا نہ صرف ناقابل اعتبار ہے بلکہ گناہ ہے، جیسا کہ دیگر احادیث میں ہے:
جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے شرک یا کفر کیا، اس لیے قسم صرف اللہ کے نام کی ہے بصورت دیگر اس کا خاموش رہنا بہتر ہے۔
' (جامع الترمذي، النذور و الأیمان، حدیث: 1535، و صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2679)
اگر غیر دانستہ طور پر غیراللہ کی قسم کھا بیٹھے تو امید ہے کہ گناہ نہیں ہو گا۔
اپنے باپ دادا، بزرگ، ولی، کعبہ، فرشتے یا کسی پیغمبر کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے، البتہ رب العالمین جس چیز کی چاہے قسم اٹھا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2679   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.