الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
9. بَابُ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ»:
9. باب: حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے مسلمانوں کا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے۔
(9) Chapter. The saying of the Prophet (p.b.u.h) to Al-Hasan bin Ali.
حدیث نمبر: Q2704
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله جل ذكره: فاصلحوا بينهما سورة الحجرات آية 9.وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات آية 9.
‏‏‏‏ اور اللہ پاک کا سورۃ الحجرات میں یہ ارشاد پس دونوں میں صلح کرا دو۔

حدیث نمبر: 2704
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن ابي موسى، قال: سمعت الحسن، يقول:" استقبل والله الحسن بن علي معاوية بكتائب امثال الجبال، فقال عمرو بن العاص: إني لارى كتائب لا تولي حتى تقتل اقرانها، فقال له معاوية: وكان والله خير الرجلين، اي عمرو إن قتل هؤلاء هؤلاء وهؤلاء هؤلاء من لي بامور الناس بنسائهم من لي بضيعتهم، فبعث إليه رجلين من قريش من بني عبد شمس: عبد الرحمن بن سمرة، وعبد الله بن عامر بن كريز، فقال: اذهبا إلى هذا الرجل فاعرضا عليه، وقولا له، واطلبا إليه، فاتياه، فدخلا عليه فتكلما وقالا له فطلبا إليه، فقال لهما الحسن بن علي: إنا بنو عبد المطلب قد اصبنا من هذا المال، وإن هذه الامة قد عاثت في دمائها، قالا: فإنه يعرض عليك كذا وكذا، ويطلب إليك ويسالك، قال: فمن لي بهذا؟ قالا: نحن لك به، فما سالهما شيئا إلا قالا نحن لك به، فصالحه، فقال الحسن: ولقد سمعت ابا بكرة، يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، والحسن بن علي إلى جنبه، وهو يقبل على الناس مرة وعليه اخرى، ويقول: إن ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين". قال ابو عبد الله: قال لي علي بن عبد الله: إنما ثبت لنا سماع الحسن منابي بكرة بهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ:" اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لَا تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ، أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولَا لَهُ، وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا وَقَالَا لَهُ فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا، قَالَا: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ، قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا؟ قَالَا: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالَا نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الْحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى، وَيَقُولُ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْأَبِي بَكْرَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما (معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔

Narrated Al-Hasan Al-Basri: By Allah, Al-Hasan bin `Ali led large battalions like mountains against Muawiya. `Amr bin Al-As said (to Muawiya), "I surely see battalions which will not turn back before killing their opponents." Muawiya who was really the best of the two men said to him, "O `Amr! If these killed those and those killed these, who would be left with me for the jobs of the public, who would be left with me for their women, who would be left with me for their children?" Then Muawiya sent two Quraishi men from the tribe of `Abd-i-Shams called `Abdur Rahman bin Sumura and `Abdullah bin 'Amir bin Kuraiz to Al-Hasan saying to them, "Go to this man (i.e. Al-Hasan) and negotiate peace with him and talk and appeal to him." So, they went to Al-Hasan and talked and appealed to him to accept peace. Al-Hasan said, "We, the offspring of `Abdul Muttalib, have got wealth and people have indulged in killing and corruption (and money only will appease them)." They said to Al-Hasan, "Muawiya offers you so and so, and appeals to you and entreats you to accept peace." Al-Hasan said to them, "But who will be responsible for what you have said?" They said, "We will be responsible for it." So, whatever Al- Hasan asked they said, "We will be responsible for it for you." So, Al-Hasan concluded a peace treaty with Muawiya. Al-Hasan (Al-Basri) said: I heard Abu Bakr saying, "I saw Allah's Apostle on the pulpit and Al-Hasan bin `Ali was by his side. The Prophet was looking once at the people and once at Al-Hasan bin `Ali saying, 'This son of mine is a Saiyid (i.e. a noble) and may Allah make peace between two big groups of Muslims through him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 867


   صحيح البخاري2704حسن بن عليابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2704  
2704. حضرت ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حسن بصری سے سنا، انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب حضرت حسن بن علی ؓ امیر معاویہ ؓ کے مقابلے میں پہاڑوں جیسا لشکر لے کر آئے تو حضرت عمرو بن عاص ؓ نے کہا: میں ایسے لشکروں کو دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وہ اپنے مخالفین کو قتل نہ کردیں۔ حضرت معاویہ ؓ جو ان (عمرو) سے بہتر تھے نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہا: اے عمرو! اگر انھوں نے اُن کو اور اُنھوں نے ان کوقتل کردیا تو لوگوں کے امورکی نگرانی کون کرے گا؟ ان کی عورتوں کی کفالت کون کرے گا؟ ان کے بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پھر سیدنا معاویہ ؓ نے قریش کے قبیلہ عبدشمس سے دو آدمی: عبدالرحمان بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر کریز، بھیجے اور ان سے کہا کہ اس شخص (حضرت حسن ؓ) کے پاس جاؤ اور صلح کی پیش کش کرو، اس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2704]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی باہمی صلح کا ذکر ہے اور اس سے صلح کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
اس مقصد کے تحت مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں لائے۔
اس صلح کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی، جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔
حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی دو راندیشی پھر مصالحت کے لیے حضرت حسن کی آمادگی، یہ جملہ حالات امت کے لیے بہت سے اسباق پیش کرتے ہیں۔
مگر صد افسوس کہ ان اسباق کو بہت کم مد نظر رکھاگیا، جس کی سزا امت ابھی تک بھگت رہی ہے۔
راوی کا قول وکان خیرالرجلین میں اشارہ حضرت امیر معاویہ ؓ اور عمروبن عاص ؓ کی طرف ہے کہ حضرت معاویہ عمرو بن عاص ؓ سے بہتر تھے جو جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2704   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2704  
2704. حضرت ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حسن بصری سے سنا، انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب حضرت حسن بن علی ؓ امیر معاویہ ؓ کے مقابلے میں پہاڑوں جیسا لشکر لے کر آئے تو حضرت عمرو بن عاص ؓ نے کہا: میں ایسے لشکروں کو دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وہ اپنے مخالفین کو قتل نہ کردیں۔ حضرت معاویہ ؓ جو ان (عمرو) سے بہتر تھے نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہا: اے عمرو! اگر انھوں نے اُن کو اور اُنھوں نے ان کوقتل کردیا تو لوگوں کے امورکی نگرانی کون کرے گا؟ ان کی عورتوں کی کفالت کون کرے گا؟ ان کے بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پھر سیدنا معاویہ ؓ نے قریش کے قبیلہ عبدشمس سے دو آدمی: عبدالرحمان بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر کریز، بھیجے اور ان سے کہا کہ اس شخص (حضرت حسن ؓ) کے پاس جاؤ اور صلح کی پیش کش کرو، اس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2704]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی حضرت حسن بن علی ؓ کے متعلق مذکورہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی دونوں جماعتوں کے درمیان صلح ہو گئی اور وہ امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے۔
(2)
اس مقام پر کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسن ؓ کی بیعت کی گئی۔
آپ نے اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں اختلاف سے بہتر ہے کہ وہ خلافت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کر کے امت میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں، چنانچہ انہوں نے چھ ماہ تک خلافت کے معاملات سر انجام دینے کے بعد ملک اور دنیا کی رونق کو ٹھکرا دیا، حالانکہ چالیس ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت سے دستبرداری کی وجہ، ذلت اور قلت نہیں بلکہ محض امت کی خیرخواہی اور دین کی سربلندی مقصود تھی۔
(3)
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی رُک گئی۔
حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت، حضرت امیر معاویہ ؓ کی دور اندیشی، پھر حضرت حسن ؓ کی صلح پر آمادگی ان سب معاملات میں امت کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔
جس سال صلح عمل میں آئی، امت مسلمہ میں وہ سال عام الجماعۃ کے نام سے مشہور ہوا۔
(4)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے ایک عنوان کتاب الفتن میں بھی ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7109)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2704   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.