الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
21. بَابُ : لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ فِي الْحَرْبِ
21. باب: جنگ میں حریر و دیبا (ریشمی کپڑوں) کے پہننے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2819
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان ، عن حجاج ، عن ابي عمر مولى اسماء، عن اسماء بنت ابي بكر ، انها اخرجت جبة مزررة بالديباج فقالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس هذه إذا لقي العدو".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا أَخْرَجَتْ جُبَّةً مُزَرَّرَةً بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ هَذِهِ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اور کہنے لگیں: دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس و الزینة 2 (2069)، سنن ابی داود/اللباس 12 (4054)، سنن النسائی/الکبری الزینة (9619)، (تحفة الأشراف: 15721)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/47، 348، 353)، الأدب المفرد (348) (صحیح) (اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، کما فی التخریج)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اکثر اہل علم کے نزدیک لڑائی میں ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ تلوار ریشم کو مشکل سے کاٹتی ہے، حریر اور دیباج میں یہ فرق ہے کہ دیباج خالص ریشم ہوتا ہے اور حریر میں ریشم ملا ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس و عنعن
وأصل الحديث في صحيح مسلم (2069) وغيره بدون ’’إذا لقي العدو‘‘ و انظر الحديث الآتي (الأصل: 3594)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 480

   سنن أبي داود4054أسماء بنت أبي بكرأخرجت جبة طيالسة مكفوفة الجيب والكمين والفرجين بالديباج
   سنن ابن ماجه3594أسماء بنت أبي بكربؤسا لعبد الله يا جارية هاتي جبة رسول الله فجاءت بجبة مكفوفة الكمين والجيب والفرجين بالديباج
   سنن ابن ماجه2819أسماء بنت أبي بكريلبس هذه إذا لقي العدو
   بلوغ المرام424أسماء بنت أبي بكرخرجت جبة رسول الله مكفوفة الجيب والكمين والفرجين بالديباج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2819  
´جنگ میں حریر و دیبا (ریشمی کپڑوں) کے پہننے کا بیان۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اور کہنے لگیں: دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2819]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم صحیح روایت سے ثابت ہے کہ مردوں کے لیے خالص ریشم کا لباس پہننا حرام ہے۔ (صحيح مسلم، اللباس والزينة، باب تحريم لبس الحرير وغير ذلك لفرجال حديث: 2-68)
البتہ کپڑوں کے کناروں، مثلاً:
دامن اور گریبان وغیرہ پر لگانا جائز ہے اوراس کی زیادہ سے زیادہ حد چار انگلیوں کے برابر ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں صراحت موجود ہے۔
واللہ اعلم-
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2819   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 424  
´لباس کا بیان`
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چوغا نکالا جس کی آستینوں، گریبان اور چاک پر دبیز ریشم کا حاشیہ تھا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ مسلم نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ وہ جبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا کہ وہ وفات پا گئیں تو میں نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے اور ہم اسے دھو کر مریضوں کو پلاتے تھے اور شفاء طلب کرتے تھے۔ اور بخاری نے الادب المفرد میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے وفود کی آمد پر اور نماز جمعہ کے لیے پہنتے تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 424»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، اللباس، باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، حديث:4054، وأصله في صحيح مسلم، اللباس والزينة، حديث:2069، والأدب المفرد للبخاري، حديث:348.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سربراہ مملکت‘ امیر اور صاحب منصب و مرتبہ خطیب و امام اور دیگر معزز لوگوں کے لیے وفود کی آمد اور جمعہ و جماعت اور دیگر خاص مواقع کے لیے عام معمول سے ہٹ کر اچھا لباس رکھنا جائز ہے۔
عمدہ‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے باہر نکلنا چاہیے بشرطیکہ حدود شرعیہ سے تجاوز نہ ہو۔
فخر و ریا‘کبر و نخوت اور شان نمائی سے بچا جائے اور ممنوع لباس سے پرہیز و اجتناب کیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 424   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4054  
´کپڑے پر ریشمی بیل بوٹوں اور ریشمی دھاگوں کا استعمال جائز ہے۔`
عبداللہ ابوعمر مولی اسماء بنت ابی بکر کا بیان ہے میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بازار میں ایک شامی کپڑا خریدتے دیکھا انہوں نے اس میں ایک سرخ دھاگہ دیکھا تو اسے واپس کر دیا تو میں اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو وہ (اپنی خادمہ سے) بولیں بیٹی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مجھے لا دے، تو وہ نکال کر لائیں وہ ایک طیالسی ۱؎ جبہ تھا جس کے گریبان اور دونوں آستینوں اور آگے اور پیچھے ریشم ٹکا ہوا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4054]
فوائد ومسائل:
1: عمدہ اور خوبصورت لباس اللہ عزوجل کی حلال کردہ نعمتوں میں سے ہے اسے استعمال میں لانا چاہیے تاکہ اس نعمت کا اظہاروشکر ادا ہو۔

2: جائز ہے کہ مردچار انگلی کے برابرریشم استعمال کرلے۔

3: کپڑوں پر سادہ قسم کے نقش جو زیادہ پر کشش نہ ہوں۔
مباح ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4054   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.