الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
32. بَابُ : فِدَاءِ الأُسَارَى
32. باب: (جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2846
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا وكيع ، عن عكرمة بن عمار ، عن إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال:" غزونا مع ابي بكر هوازن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنفلني جارية من بني فزارة من اجمل العرب عليها، قشع لها فما كشفت لها عن ثوب، حتى اتيت المدينة فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال:" لله ابوك! هبها لي"، فوهبتها له، فبعث بها ففادى بها اسارى من اسارى المسلمين كانوا بمكة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ هَوَازِنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَفَّلَنِي جَارِيَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ مِنْ أَجْمَلِ الْعَرَبِ عَلَيْهَا، قَشْعٌ لَهَا فَمَا كَشَفْتُ لَهَا عَنْ ثَوْبٍ، حَتَّى أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ:" لِلَّهِ أَبُوكَ! هَبْهَا لِي"، فَوَهَبْتُهَا لَهُ، فَبَعَثَ بِهَا فَفَادَى بِهَا أُسَارَى مِنْ أُسَارَى الْمُسْلِمِينَ كَانُوا بِمَكَّةَ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المغازي 14 (1755)، سنن ابی داود/الجہاد 134 (2697)، (تحفة الأشراف: 4515)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ و 47، 51) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ امام کسی کو کوئی چیز دے کر پھر اس کو واپس لے لے تو بھی جائز ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، آپ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو پہلے دحیہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا پھر ان سے واپس لے لیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح مسلم4573سلمة بن عمروهب لي المرأة فقلت يا رسول الله والله لقد أعجبتني وما كشفت لها ثوبا ثم لقيني رسول الله من الغد في السوق فقال لي يا سلمة هب لي المرأة لله أبوك فقلت هي لك يا رسول الله فوالله ما كشفت لها ثوبا فبعث بها رسول الله
   سنن أبي داود2697سلمة بن عمروهب لي المرأة لله أبوك فقلت يا رسول الله والله ما كشفت لها ثوبا وهي لك فبعث بها إلى أهل مكة وفي أيديهم أسرى ففاداهم بتلك المرأة
   سنن ابن ماجه2846سلمة بن عمروهبها لي فوهبتها له فبعث بها ففادى بها أسارى من أسارى المسلمين كانوا بمكة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2846  
´(جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2846]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال غنیمت تمام مجاہدین میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے تاہم بہتر کارکردگی دکھانے والوں کو اس کے علاوہ بھی انعام دیا جاسکتا ہے اسے نفل کہتے ہیں۔

(2)
امام (خلیفہ یا کمانڈر)
کسی مجاہد کو دیا ہوا انعام واپس لے سکتا ہے جب اسے واپس لینے میں کوئی بڑی مصلحت ہو۔

(3)
مسلمانوں قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کافر قیدیوں کو آزاد کرنا جائز ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شرعاً درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2846   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2697  
´جوان قیدیوں کو الگ الگ رکھنا جائز ہے۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہو گئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2697]
فوائد ومسائل:

مجاہد کو اضافی انعامات (نفل غنیمت) خمس نکالنے سے پہلے دیئے جاتے ہیں۔


قیدی اگر بڑی عمر کے ہوں۔
تو قریبی رشتہ داروں میں بھی تفریق کی جا سکتی ہے۔


رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کا مال اس کی ولی رضا مندی کے بغیر لینا پسند نہ کرتے تھے۔


لونڈیوں سے مباشرت جائز ہے۔
خواہ مشرک ہی ہوں۔
مگر استبراء (ایک حیض آنے) کے بعد۔


جس طرح بھی بن پڑے مسلمان قیدیوں کو آزاد کرایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2697   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.