الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ
Chapters on Parables
4. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ الْمُؤْمِنِ الْقَارِئِ لِلْقُرْآنِ وَغَيْرِ الْقَارِئِ
4. باب: قرآن پڑھنے والے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال۔
حدیث نمبر: 2865
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس، عن ابي موسى الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن كمثل الاترجة ريحها طيب وطعمها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن كمثل التمرة لا ريح لها وطعمها حلو، ومثل المنافق الذي يقرا القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن كمثل الحنظلة ريحها مر وطعمها مر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه شعبة عن قتادة ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لَا رِيحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ رِيحُهَا مُرٌّ وَطَعْمُهَا مُرٌّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن (حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 17 (5020)، و 36 (5059)، والأطعمة 30 (5427)، التوحید 57 (7560)، صحیح مسلم/المسافرین (37 (797)، سنن ابی داود/ الأدب 19 (4830)، سنن النسائی/الإیمان 32 (5041)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (214) (تحفة الأشراف: 8981)، و مسند احمد (397، 408) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو، ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔ اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے، یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے، ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی، اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے، یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا، یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن (حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے، بلکہ کڑوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (43)

   صحيح البخاري7560أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن كالأترجة طعمها طيب وريحها طيب مثل الذي لا يقرأ كالتمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل الفاجر الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل الفاجر الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ولا ريح لها
   صحيح البخاري5427أنس بن مالكيقرأ القرآن كمثل الأترجة ريحها طيب وطعمها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة لا ريح لها وطعمها حلو مثل المنافق الذي يقرأ القرآن مثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة ليس لها ريح وطعمها مر
   صحيح البخاري5020أنس بن مالكيقرأ القرآن كالأترجة طعمها طيب وريحها طيب الذي لا يقرأ القرآن كالتمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل الفاجر الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل الفاجر الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ولا ريح لها
   صحيح البخاري5059أنس بن مالكيقرأ القرآن ويعمل به كالأترجة طعمها طيب وريحها طيب المؤمن الذي لا يقرأ القرآن ويعمل به كالتمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل المنافق الذي يقرأ القرآن كالريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كالحنظلة طعمها مر وريحها مر
   صحيح مسلم1860أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن مثل الأترجة ريحها طيب وطعمها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن مثل التمرة لا ريح لها وطعمها حلو مثل المنافق الذي يقرأ القرآن مثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة ليس لها ريح وط
   جامع الترمذي2865أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن كمثل الأترجة ريحها طيب وطعمها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة لا ريح لها وطعمها حلو مثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة ريحها مر وط
   سنن أبي داود4829أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن مثل الأترجة ريحها طيب وطعمها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل الفاجر الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل الفاجر الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ولا ر
   سنن النسائى الصغرى5041أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن مثل الأترجة طعمها طيب وريحها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ولا
   سنن ابن ماجه214أنس بن مالكمثل المؤمن الذي يقرأ القرآن كمثل الأترجة طعمها طيب وريحها طيب مثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة طعمها طيب ولا ريح لها مثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر مثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ول

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5020  
´قرآن مجید کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر کس قدر ہے؟`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَالَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلَا رِيحَ لَهَا . . .»
. . . ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی (مومن کی) مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور جس کی خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس بدکار (منافق) کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس بدکار کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اندرائن کی سی ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 5020]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5020 کا باب: «بَابُ فَضْلِ الْقُرْآنِ عَلَى سَائِرِ الْكَلاَمِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب میں قرآن مجید کی فضیلت پر اشارہ فرمایا ہے کہ تحت الباب پوری حدیث میں کہیں بھی قرآن مجید کی فضیلت پر واضح طور پر کوئی الفاظ نہیں ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«مناسبة الحديث الثاني من جهة ثبوت فضل هذه الامة على غيرها من الأمم وثبوت الفضل لها ثبت من فضل كتابها الذى أمرت بالعمل به» [فتح الباري لابن حجر: 58/10]
ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس امت (امت محمدیہ) کو تمام امتوں پر فضیلت جو ہے وہ فضیلت اس کتاب (قرآن) کی وجہ سے ہے جس پر انہیں عمل کا حکم دیا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ممکن ہے کہ امت محمدیہ کو فضیلت ہی اس قرآن کی وجہ سے عطا کی گئی ہے، لہٰذا اسی کتاب کی وجہ سے امت کو افضل قرار دیا گیا ہے تو وہ چیز جو افضلیت کا سبب ہے، تمام تر چیزوں سے افضل ہو گی۔

امام کرمانی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«واما الحديث الثاني فلا دلالة على الترجمه فيه اصلاّ .» [شرح كرماني: 9،30/19]
جو حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ ترجمہ الباب سے اصل مناسبت نہیں رکھتی۔
کرمانی صاحب کے اس اشکال کو دور کرتے ہوئے، محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فضل القاري لقراءه القران وكذلك فضل هذه الامة على الامم انما هو بسبب القران .» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 443/8]
قاری کی فضیلت (درحقیقت) قراءۃ قرآن کے ساتھ ہے اور اسی طرح امت کی فضیلت دیگر امتوں پر قرآن مجید کی وجہ سے ہے۔

لہٰذا حدیث اور باب میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ اس امت کو فضیلت قرآن مجید کے سبب دی گئی ہے اور جب اس امت کو تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے تو بالاولیٰ اس امت کی کتاب کو بھی تمام کتابوں پر فضیلت ہو گی، یہیں سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 76   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث214  
´قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال تھوہڑ (اندرائن) جیسی ہے کہ اس کا مزہ کڑوا ہے، اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 214]
اردو حاشہ:
(1)
قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل دونوں خوبیاں ہیں اور دونوں مطلوب ہیں۔
تلاوت ظاہری خوبی ہے جسے خوشبو سے تشبیہ دی گئی ہے اور عمل باطنی خوبی ہے کیونکہ اس میں ایمان، اخلاص، اللہ سے محبت، خشیت الہی اور تقویٰ جیسے باطنی اعمال بھی شامل ہیں، اس لیے اسے ذائقے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تلاوت کو خوشبو سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہو کہ اسے ہر خاص و عام سن لیتا ہے جب کہ عمل کا اندازہ اسی کو ہوتا ہے جس کو واسطہ پڑے جس طرح ذائقے کا علم اسی کو ہوتا ہے جو پھل کو چکھے۔

(2)
الْأُتْرُجَّة :
(ترنجبین)
لیموں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک پھل ہے۔
اس کا رنگ بھی خوش کن ہوتا ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے۔

(3)
الرَّيْحَانَة:
اصل میں ہر اس پودے کو کہتے ہیں جس سے خوشبو آئے، عام طور پر یہ لفظ نازبو کے لیے مستعمل ہے لیکن دوسرے خوشبودار پودوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

(4)
منافق کا عقیدہ اور سیرت تلخ اور خراب ہوتی ہے مگر قراءت قرآن کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے اس کی مثال ایسے پھول سے دی ہے جس کی خوشبو دور سے بھی محسوس ہے لیکن کھانے کے لائق ہرگز نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 214   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2865  
´قرآن پڑھنے والے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن (حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأمثال/حدیث: 2865]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو،
ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔
اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے،
یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے،
ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی،
اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے،
یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے،
یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے،
اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا،
یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے،
یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن(حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے،
بلکہ کڑوا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2865   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4829  
´کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہئے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس نارنگی کی سی ہے جس کی بو بھی اچھی ہے اور جس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور ایسے مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ اچھا ہوتا ہے لیکن اس میں بو نہیں ہوتی، اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، گلدستے کی طرح ہے جس کی بو عمدہ ہوتی ہے اور اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے، اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، ایلوے کے مانند ہے، جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی، اور صالح دوست کی مثال مشک والے کی طرح ہے، کہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4829]
فوائد ومسائل:
1) صالح متقی اور صاحبِ عمل مومن کی صحبت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس میں دین اور دُنیا دونوں کا فائدہ ہے۔

2) فاسق و فاجر لوگوں سے دور رہنا چاہیئے کہ ان کی صحبت میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔

3) استاذ اور خطیب کو عمدہ مثالوں سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4829   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.