الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نماز کے احکام
नमाज़ के नियम
9. باب صلاة التطوع
9. نفل نماز کا بیان
९. “ नफ़ली नमाज़ के नियम ”
حدیث نمبر: 302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن علي رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اوتروا يا اهل القرآن فإن الله وتر يحب الوتر» . رواه الخمسة وصححه ابن خزيمة.وعن علي رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أوتروا يا أهل القرآن فإن الله وتر يحب الوتر» . رواه الخمسة وصححه ابن خزيمة.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو۔ اللہ خود بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अली बिन अबु तालिब रज़ि अल्लाहु अन्ह रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “ऐ क़ुरआन वालो ! वित्र पढ़ा करो। अल्लाह ख़ुद भी वित्र है और वित्र को पसंद करता है।”
इसे पांचों यानी अहमद, अबू दाऊद, त्रिमीज़ी, निसाई, इब्न माजा ने रिवायत किया है और इब्न ख़ुज़ैमा ने इसे सहीह ठहराया है।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب استحباب الوتر، حديث:1416، والترمذي، الوتر، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1169، وأحمد: 1 /148، وابن خزيمة: 2 /137، حديث:1067، وأبو اسحاق عنعن.»

Narrated 'Ali bin Abi Talib (RA): Allah's Messenger (ﷺ) said: "O people of the Qur'an! Offer Witr (prayer), because Allah is Witr (One) and loves Witr." [Reported by al-Khamsah and Ibn Khuzaimah graded it Sahih (authentic)].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: ضعيف

   سنن النسائى الصغرى1676علي بن أبي طالبيا أهل القرآن أوتروا فإن الله وتر يحب الوتر
   جامع الترمذي453علي بن أبي طالبالله وتر يحب الوتر أوتروا يا أهل القرآن
   سنن ابن ماجه1169علي بن أبي طالبأوتروا فإن الله وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام302علي بن أبي طالب أوتروا يا أهل القرآن فإن الله وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام294علي بن أبي طالبليس الوتر بحتم كهيئة المكتوبة ولكن سنة سنة سنها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 302  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو۔ اللہ خود بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 302»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب استحباب الوتر، حديث:1416، والترمذي، الوتر، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1169، وأحمد: 1 /148، وابن خزيمة: 2 /137، حديث:1067، وأبو اسحاق عنعن.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بناپر صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۴۱۳‘ وصحیح أبوداود (مفصل) للألباني‘ حدیث:۱۲۷۴) بنابریں اس حدیث سے حفاظ قرآن کو ترغیب ہے کہ وہ قیام اللیل کا اہتمام کریں کیونکہ اس سے قرآن یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 302   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 294  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وتر فرضوں کی طرح حتمی اور لازمی نہیں ہے بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔
اسے ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 294»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء أن الوتر ليس بحتم، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، والحاكم:1 /300، ووافقه الذهبي، أبوسحاق مدلس وعنعن.»
تشریح:
یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جو وتر کے وجوب کے قائل نہیں۔
بعض محققین نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عاصم بن ضمرہ کوفی متکلم فیہ ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اعدل الاقوال ذکر کیا ہے کہ وہ صدوق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی تحسین و تصحیح نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی اس کے شواہد ہیں جنھیں الموسوعۃ الحدیثیہ والوں نے قوی قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ / ۸۱) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 294   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1169  
´وتر کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
اورانہی محققین کی رائے اَقْرَبُ إِلَی الصَّوّاب معلوم ہوتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل، 413/2  وصحیح ابوداؤد (مفصل)
حدیث: 1274)


(2)
  وتر سے پوری نماز تہجد بھی مراد ہوسکتی ہے۔
اور تہجد کے آخر میں پڑھی جانے والی چند رکعتیں بھی۔
احادیث میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اس حدیث میں اگر نماز تہجد مراد ہو تو وہ نفلی نماز ہے۔
تاہم اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
اوراگر تہجد کی آخری رکعتیں مراد ہوں۔
جو عرف عام میں وتر کہلاتی ہیں۔
تو انھیں سنت مؤکدہ قراردیا جا سکتا ہے۔

(3)
  وتر کے لفظی معنی طاق ہیں۔
یعنی وہ عدد جو دو پر تقسیم نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ایک ہے۔
اور ایک کا عدد سب سے پہلا طاق عدد ہے نماز وتر یا نماز تہجد مع وتر بھی طاق عدد میں ہوتی ہے۔
اس لئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔

(4)
جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ مومن کو بھی پسند ہوتا ہے۔
اس لئے اس پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
 
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1169   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 453  
´وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 453]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔

2؎:
اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،
صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔

3؎:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا،
اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے،
اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے،
نہ کہ صرف قرآن کا،
جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے،
یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے،
حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ:
(سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں،
نیز عاصم میں قدرے کلام ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 453   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.