الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
61. بَابُ : الْوُقُوفِ بِجَمْعٍ
61. باب: مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان۔
Chapter: Stopping at Jam` (Muzdalifah)
حدیث نمبر: 3022
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن حجاج ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: حججنا مع عمر بن الخطاب فلما اردنا ان نفيض من المزدلفة، قال:" إن المشركين كانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير، وكانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، فخالفهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فافاض قبل طلوع الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نُفِيضَ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ، قَالَ:" إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ، وَكَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَخَالَفَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: مشرکین کہا کرتے تھے: اے کوہ ثبیر! روشن ہو جا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 100 (1684)، مناقب الأنصار 26 (3838)، سنن ابی داود/الحج 65 (1938)، سنن الترمذی/الحج 60 (896)، سنن النسائی/الحج 213 (3050)، (تحفة الأشراف: 10616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/14، 29، 39، 42، 50، 52) سنن الدارمی/المناسک 55 (1932) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جب عرفات سے نویں تاریخ کو لوٹ کر چلے تو راستہ میں مغرب نہ پڑھے بلکہ مغرب اور عشاء دونوں ملا کر عشاء کے وقت میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں آ کر پڑھے، پھر رات مزدلفہ ہی میں گزارے اور صبح ہوتے ہی نماز فجر پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہو جائے گا، مزدلفہ میں رات کو رہنا سنت ہے، اور جو لوگ مزدلفہ میں رات بسر نہیں کرتے وہ بدعت کا کام کرتے ہیں، جس سے حاکم کو منع کرنا چاہیے اور جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس پر ایک دم لازم ہو گا، ابن خزیمہ اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنا رکن ہے، اس صورت میں اس کے ترک سے ان کا حج باطل ہو جائے گا، اور اس کمی کو دم سے نہ دور کیا جا سکے گا، اور رات کو رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ میں ٹھہرے اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی، اگر اس سے پہلے چل دے گا تو اس پر دم لازم ہو گا، لیکن فجر ہونے سے پہلے سے پھر وہاں لوٹ آئے تو دم ساقط ہو جائے گا، بہرحال رات کی نصف ثانی میں تھوڑی دیر فجر تک مزدلفہ میں ٹھہرنا ضروری ہے، (الروضۃ الندیۃ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري3838عمر بن الخطابالمشركين كانوا لا يفيضون من جمع حتى تشرق الشمس على ثبير فخالفهم النبي فأفاض قبل أن تطلع الشمس
   سنن ابن ماجه3022عمر بن الخطابخالفهم رسول الله فأفاض قبل طلوع الشمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3022  
´مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: مشرکین کہا کرتے تھے: اے کوہ ثبیر! روشن ہو جا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3022]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے مگر اس وقت جب کافی روشنی ہوجائے۔

(2)
مسلمانوں کی عبادتیں غیر مسلموں سے مختلف ہیں حتی کہ جوعبادتیں مشترک ہیں ان میں طریق کار میں فرق کردیا گیا ہے۔

(3)
جب مشترک عبادتیں بھی مختلف کردی گئیں ہیں تو ان تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہےجو خالص غیر مسلم اور رسمی تہواریں ہیں مثلاً:
کرسمس نیا عیسوی سال نوروز، بسنت، دیوالی، میلے ٹھیلے وغیرہ نیز شادی غمی کی وہ رسمیں جو غیر مسلموں میں رائج ہیں مثلاً سالگرہ، برسی، کسی کی وفات پر سیاہ لباس پہننا چراغاں منگنی اور شادی کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور آپس میں ہنسی مذاق، مہندی لیکر اس پر شمعیں جلانا اور عورتوں کا راستوں میں ناچتے ہوئے گاتے ہوئے مہندی لیکر چلنا۔
یہ سب کافروں بالخصوص ہندؤں کی رسمیں ہیں جن کے متعلق دینی غیرت و حمیت رکھنے والا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔
ہاں! اگر دینی غیرت ہی ختم ہوجائے تو پھر اور بات ہے۔
بنا بریں ایسی خرافات سےتمام مسلمانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3022   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.