426- وعن ابى النضر عن نافع مولى ابى قتادة الانصاري عن ابى قتادة: انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا ببعض طريق مكة تخلف مع اصحاب له محرمين وهو غير محرم. فراى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه، ثم سال اصحابه ان يناولوه سوطه فابوا، فسالهم رمحه فابوا، فاخذ، ثم شد على الحمار فقتله، فاكل بعض اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وابى بعضهم، فلما ادركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سالوه عن ذلك، فقال: ”إنما هي طعمة اطعمكموها الله.“426- وعن أبى النضر عن نافع مولى أبى قتادة الأنصاري عن أبى قتادة: أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا ببعض طريق مكة تخلف مع أصحاب له محرمين وهو غير محرم. فرأى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه، ثم سأل أصحابه أن يناولوه سوطه فأبوا، فسألهم رمحه فأبوا، فأخذ، ثم شد على الحمار فقتله، فأكل بعض أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وأبى بعضهم، فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سألوه عن ذلك، فقال: ”إنما هي طعمة أطعمكموها الله.“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم مکے کے بعض راستے میں تھے تو وہ بعض ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ پھر انہوں نے ایک گورخر (جنگلی حلال جانور) دیکھا تو اپنے گھوڑے پر چڑھ گئے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں مگر ساتھیوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ان کا نیزہ انہیں دے دیں مگر ساتھیوں نے (اس سے بھی) انکار کر دیا تو انہوں نے خود پکڑ لیا پھر گورخر پر حملہ کر کے اسے شکار کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے اس گورخر کے گوشت میں سے کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کر دیا پھر جب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (شکار) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (حلال) کھانا ہے جو تمہیں اللہ نے کھلایا ہے۔
हज़रत अबु क़तादा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि वह रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ थे। अबु क़तादा अल-अंसारी रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा ! जब हम मक्का के रास्ते में थे तो वह कुछ साथियों समेत पीछे रह गए और उन्हों ने एहराम नहीं बंधा था। फिर उन्हों ने एक ज़ेबरा (जंगली हलाल जानवर) देखा तो अपने घोड़े पर चढ़ गए फिर अपने साथियों से कहा कि वह उन्हें उन का कोड़ा देदें मगर साथियों ने इन्कार कर दिया। फिर उन्हों ने कहा कि उन का भाला उन्हें देदें मगर साथियों ने (इस से भी) इन्कार कर दिया तो उन्हों ने ख़ुद पकड़ लिया फिर ज़ेबरा पर हमला कर के उसे शिकार कर लिया। नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के कुछ सहाबा ने इस ज़ेबरा के मांस में से खाया और कुछ ने खाने से इन्कार कर दिया फिर जब उन की रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से मुलाक़ात हुई तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से इस (शिकार) के बारे में पूछा ! तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ये (हलाल) खाना है जो तुम्हें अल्लाह ने खिलाया है।
تخریج الحدیث: «426- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 350/1 ح 794، ك 20 ب 24 ح 76) التمهيد 151/21، الاستذكار: 744، و أخرجه البخاري (2914) ومسلم (1196/57) من حديث مالك به.»
رأوا حمارا وحشيا قبل أن يراه فلما رأوه تركوه حتى رآه أبو قتادة فركب فرسا له يقال له الجرادة فسألهم أن يناولوه سوطه فأبوا فتناوله فحمل فعقره ثم أكل فأكلوا فندموا فلما أدركوه قال هل معكم منه شيء ق
رأى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه فسأل أصحابه أن يناولوه سوطه فأبوا فسألهم رمحه فأبوا فأخذه ثم شد على الحمار فقتله فأكل منه بعض أصحاب النبي وأبى بعض فلما أدركوا رسول الله سألوه عن ذلك قال إنما هي طعمة أطعمكموها الله
نظرت فإذا حمار وحش فأسرجت فرسي وأخذت رمحي ثم ركبت فسقط مني سوطي فقلت لأصحابي وكانوا محرمين ناولوني السوط فقالوا والله لا نعينك عليه بشيء فنزلت فتناولته ثم ركبت فأدركت الحمار من خلفه وهو وراء أكمة فطعنته برمحي فعقرته فأتيت به أصحابي فقال بعضهم كلوه وقال بع
خذوا ساحل البحر حتى تلقوني قال فأخذوا ساحل البحر فلما انصرفوا قبل رسول الله أحرموا كلهم إلا أبا قتادة فإنه لم يحرم فبينما هم يسيرون إذ رأوا حمر وحش فحمل عليها أبو قتادة فعقر منها أتانا فنزلوا فأكلوا من لحمها قال فقالوا أكلنا لحما
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 599
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان` سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اور وہ احرام والے تھے ”کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟“ انہوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پس کھاؤ اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 599]
599 لغوی تشریح: «فِي فِصَّةِ صَيْدِهِ الْحِمَارِ الْوَحْشِي» جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں۔
فوائد و مسائل: ➊ اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے، مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا، البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انہوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ، انہوں نے اس سے انکار کر دیا، پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہو گئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔ ➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 599